سرادار سلیمانی کی شہادت نے ثابت کردیا کہ امریکہ ایک سر کش ملک ہے
ایک ممتاز امریکی فلسفی اور مؤرخ نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی اقدامات ، بشمول سردار سلیمانی کا قتل امریکہ میں شدت پسندانہ نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔
ممتاز امریکی فلسفی اور تاریخ دان نوم چومسکی نے منگل کے روز کہا کہ امریکی حکومت کے ذریعہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل افسوسناک فعل ہے اور یہ ملک کے اندر شدت پسندوں کے جذبات کی نشانی ہے۔
چومسکی نے ایک انٹرویو میں کہا سب سے پہلے جامع مشترکہ ایکشن پلان ایٹمی معاہدے کا خاتمہ اور ایران کے بارے میں ٹرمپ کے دوسرے اقدامات بین الاقوامی قانون کی نمایاں خلاف ورزی تھے جب کہ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کیا تھا لیکن ٹرمپ نے کہا کہ مجھے نہیں چاہیے اس کو کسی دوسرے نے انجام دیا ہے حالانکہ ٹرمپ کے اس اقدام سے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جب اس معاہدے کے بعد بین الاقوامی سطح پر رد عمل بہت کم دیکھنے کو ملا تھا۔
ایک ممتاز امریکی فلسفی اور مؤرخ نے کہا کہ ایران کے خلاف امریکی اقدامات ، بشمول سردار سلیمانی کا قتل امریکہ میں شدت پسندانہ نظریے کی عکاسی کرتا ہے
انہوں نے اپنے بیان کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا کے سردار سلیمانی کو قتل کرنا بہت خطرناک کام تھا اور ایسا خطرناک کام دوسری عظیم جنگ یا سرد جنگ کے دوران بھی نہیں ہوا تھا سرادار سلیمانی پر دہشتگردانہ کاروائی کرنا بالکل ایسی ہی تھی جیسے جیسے ایران میکسیکو سٹی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مائیک پومپیو اور اس کے ایک اعلی کمانڈر کو قتل کرنے کا فیصلہ کرتا اور ہم اس کے اس فیصلے کو سنجیدگی سے لیتے لیکن ٹرمپ کے اس اقدام کے بعد امریکہ کی تعریف کی گئی جو کافی حیرت کن بات تھی کہ اتنے خطرناک کام کے بعد کس طرح امریکہ کی تعریف کی جا رہی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے اندر پائے جانے والے تفکرات کتنے افراطی ہیں اور ٹرامپ کے ان اقدامات اس بات کو ثابت کردیا کہ امریکہ ایک سر کش ملک ہے ۔
انہوں نے کہا امریکہ کی جانب سے اس طرح کے اقدامات سے صرف تنازعات میں اضافہ ملتا ہے اگر ایران بھی خلیج فارس میں ایسا کوئی کام کرتا اور امریکی اڈوں پر بمباری کرتا تو ایک عظیم جنگ کی شروعات ہو سکتی تھی اور اس جنگ کا ذمہ دار امریکا ہوتا انہوں نے کہا کے ایران کے بارے میں ٹرمپ کے دوسرے اقدامات بین الاقوامی قانون کی نمایاں خلاف ورزی تھے جب کہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کیا تھا لیکن ٹرمپ نے کہا کہ مجھے نہیں چاہیے اس کو کسی دوسرے نے انجام دیا ہے حالانکہ ٹرمپ کے اس اقدام سے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے جب اس معاہدے کے بعد بین الاقوامی سطح پر رد عمل بہت کم دیکھنے کو ملا تھا۔