اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کی ناکام مہم
تحریر: عبدالرضا خلیلی
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ایک عرصے سے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتی آ رہی ہے۔ اسرائیلی حکمرانوں نے اپنے ناجائز قبضے کو جائز اور قانونی بنانے کیلئے مختلف قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لائے ہیں۔ غاصب صہیونی رژیم کو درپیش سب سے بڑا چیلنج اسلامی دنیا میں اس کے خلاف پائی جانے والی شدید نفرت ہے۔ لہذا اسرائیلی حکمران ایک طرف مقبوضہ فلسطین پر اپنا ناجائز قبضہ جائز اور قانونی ظاہر کرنے کے درپے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض عرب ممالک پر مسلط ڈکٹیٹر حکمرانوں کو اپنی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے پر مجبور کر کے اسلامی دنیا میں موجود اپنے خلاف نفرت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت امریکہ اور اسرائیل کے شدید دباو کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات اور بحرین غاصب صہیونی رژیم کو تسلیم کر چکے ہیں۔
اس وقت صہیونی ذرائع ابلاغ چند ڈکٹیٹر عرب حکمرانوں کی جانب سے صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات کی استواری پر رضامندی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا ان محدود حکمرانوں کے اس عمل کا سہارا لے کر یہ پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں کہ تمام اسلامی ممالک اور پوری اسلامی دنیا اسرائیل سے اس قسم کا معاہدہ انجام دینے کی حامی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں مسلمان عوام اور مسلمان حکمرانوں کی اکثریت اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے شدید مخالف ہے۔ عالمی خبررساں ادارے رویٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ابوظہبی کے ولی عہد کو مقبوضہ فلسطین دورے کی دعوت دی ہے۔ یہ بعض عرب حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کیلئے جاری مہم کی تازہ ترین خبر ہے۔
بنجمن نیتن یاہو نے یہ بھی بتایا کہ ابوظہبی کے ولی عہد نے بھی انہیں متحدہ عرب امارات دورے کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح رویٹرز نے اپنی ایک دوسری رپورٹ میں ابوظہبی کے ولی عہد کا یہ بیان شائع کیا تھا کہ "میں نے اسرائیلی وزیراعظم سے دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے کے بارے میں بات چیت کی ہے اور ہم دونوں نے قیام امن کے ممکنہ طریقوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ خطے میں استحکام، باہمی تعاون اور ترقی پر زور دیا ہے۔" دوسری طرف غاصب صہیونی رژیم کی وزارت خارجہ نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے عوام اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے ٹویٹر پر "اسرائیل بالعربیہ" نامی اکاونٹ بنا رکھا ہے جس پر وقتاً فوقتاً اس کا موقف سامنے آتا رہتا ہے۔
اسرائیل بالعربیہ نے حال ہی میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھا: "امریکی تحقیقاتی ادارے "زغبی" کی جانب سے انجام پانے والی سروے رپورٹ کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن کے اکثر عوام خطے میں استحاکام پیدا کرنے میں اسرائیل کے کردار کے پیش نظر تل ابیب سے دوستانہ تعلقات کے حق میں ہیں۔" اسرائیلی میڈیا اور حکمرانوں کی جانب سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کے باوجود کہ اسلامی دنیا میں ان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے وسیع رجحانات پائے جاتے ہیں یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ نہ تو مسلمان عوام اور نہ ہی مسلمان حکمرانوں کی اکثریت اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے شدید مخالف ہے۔ وہ محدود عرب حکمران جنہوں نے غاصب صہیونی رژیم کو تسلیم کر کے اس سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا ہے اسلامی دنیا میں شدید منفور قرار پائے ہیں۔
یہ حقیقت اس وقت مزید ابھر کر سامنے آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ گذشتہ کئی ماہ سے کوئی رکن عرب ملک عرب لیگ کی سربراہی کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے تیار نہیں ہو رہا کیونکہ سب بخوبی آگاہ ہیں کہ جو بھی موجودہ حالات میں اس تنظیم کی سربراہی سنبھالے گا اسے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے پڑیں گے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں انہی عرب ممالک کے اندر عرب لیگ کی سربراہی حاصل کرنے کیلئے شدید رسہ کشی اور مقابلہ بازی ہوا کرتی تھی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے بعد حالات انتہائی نازک ہو گئے ہیں جس کے باعث کوئی رکن ملک عرب لیگ کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لینے کو تیار دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی ایک وجہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کے خلاف شدید نفرت اور منفی رائے عامہ ہے۔
معروف اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ اس بارے میں لکھتا ہے: "تازہ ترین مطالعات اور تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر عرب دنیا کے 90 فیصد صارفین اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے خلاف ہیں۔" اسی طرح ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر عرب صارفین میں سے 90 فیصد صارفین نے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کی مذمت کی ہے۔ یہ تحقیقات اگست سے ستمبر تک انجام پائی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور اس کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ پوری دنیا میں شدید نفرت اور بے زاری پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا کے صارفین میں سے 45 فیصد ایسے تھے جنہوں نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کو غداری قرار دیا ہے۔