امام خمینی (رہ) کے بیانات کی روشنی میں دفاع مقدس میں خواتین کا کردار
عصر حاضر میڈیا کا زمانہ ہے اور اس میں سب سے اہم کام جسے انجام دیا جا سکتا ہے اور اسے انجام دینے کے ذرائع بھی موجود ہیں وہ اقدار ہیں جنہیں زندہ کرنا لازمی ہے۔ دفاع مقدس میں خواتین نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے جو ایک سپاہی کے محاذ جنگ پر جانے اور اس کی پشت پناہی سے آغاز ہوتا ہے اور محاذ جنگ کے قریب تعمیر شدہ صحرائی ہسپتالوں میں زخمیوں کی دیکھ بال پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن اب تک دفاع مقدس کے حوالے سے جو کردار خواتین کا پیش کیا گیا ہے وہ اپنی جگہ تو صحیح ہے لیکن اسے جس طرح مؤثر ثابت ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہو پایا ہے۔ آج دنیا کی جنگ میڈیا کی جنگ ہے، کاموں میں پیشرفت اور بین الاقوامی سیاست اور بہت سے دوسرے امور تبلیغ، اخبار، مفاہیم اور درست و نادرست بیانات کے ذریعہ انجام پاتی ہے۔
سماج میں جب جنگ و دفاع مقدس کا نام آتا ہے تو اس میں مردوں کے کردار کو سراہا جاتا ہے اور ان کے کردار کو اجاگر کیا جاتا ہے جبکہ دفاع مقدس میں عورتوں نے بھی مردوں کے شانہ بشانہ نہایت اہم کردار ادا کیا ہے جب ہم دفاع مقدس کے شہید کمانڈروں کی بایو گرافی پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی زندگی خصوصاً دفاع مقدس میں ان کی جانثاری اور قربانی پر ان کی ماؤں اور بیویوں کا کردار کتنا اہم رہا ہے۔ دفاع مقدس میں شہید ہونے والے بعض کمانڈروں اور ان کی ماؤں اور بیویوں کے درمیان معنویت کا رشتہ اس قدر گہرا تھا کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شہادت میں ان کی ماؤں اور بیویوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔ دفاع مقدس میں خواتین کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بانی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: اسلام کی ابتدا میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر جنگوں میں شرکت کیا کرتی تھیں، اور دفاع مقدس میں بھی ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ ہیں بلکہ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین مردوں سے بھی آگے ہیں۔ وہ اپنے بچوں اور جوانوں کو کھو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بے خوف و خطر دشمن کے سامنے ڈٹی ہوئی ہیں اور اس کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ملکی دفاع کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں: اگر کوئی وقت ایسا آ جائے کہ ہمارے ملک پر کوئی حملہ کر دے تو ایسی صورت میں تمام مرد و عورتوں کو قیام کرتے ہوئے اپنے ملک کا دفاع کرنا چاہئے، ملک کا دفاع کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کی ذمہ داری صرف مردوں پر عائد ہوتی ہے اور عورتیں اس سے مستثنی ہیں یا کسی ایک گروہ سے مخصوص ہے بلکہ سب کو یہ جان لینا چاہئے کہ سب کے لئے اپنے ملک کا دفاع لازمی ہے۔
اگر ہم اسلام سے پہلے عورت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اسلام سے پہلے عورت کی تاریخ نہایت دردناک نظر آتی ہے، عورت کو تمام انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا حتی وہ جینے کے حق سے بھی محروم تھی، لیکن اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورت کو جینے کا حق دیا، سماج میں اسے مقام و منزلت عطا کی، تعلیم و تعلم کا حق دیا، مالکیت کا حق دیا، مرد کے مظالم کے مقابلے میں شکایت کا حق دیا، اپنے حقوق کے دفاع کا حق دیا اور سماجی امور میں بھی مکمل طریقے سے شریک ہونے اور اپنا کراد ادا کرنے کا حق عطا کیا۔ اسلام نے مرد کو کسی قسم کا خاص امتیاز نہیں دیا جس سے وہ عورت پر اپنی برتری جتا سکے۔ حضرت امام خمینی(رہ) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ بعض موارد میں مرد اور عورت کے درمیان ایسا طبیعی فرق پایا جاتا ہے جو ان کے انسان ہونے کی حیثیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ عورت ان مسائل میں جو اس کی شرافت کے منافی نہیں ہیں آزاد ہے یعنی وہ اپنا کردار بہترین انداز میں ادا کر سکتی ہے۔ آج اسلامی نظام کے اندر عورت مسلمان مرد کی طرح اپنے وظائف کے انتخاب میں آزاد ہے۔ اور اپنی طاقت، لیاقت اور ہوشیاری بر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی شرافت، کرامت، عفت اور پاکدامنی کی حفاظت کرتے ہوئے سماجی ذمہ داریوں کو انتخاب کر سکتی ہے اور انہیں اچھے انداز میں نبھا سکتی ہے۔
ایران اور عراق کی جنگ کے آغاز سے ہی ملک بھر کی خواتین نے شجاعت، بہادری اور دلیری کے ساتھ ملک کی مختلف سرحدوں جیسے خرمشہر، سوسنگرد، اہواز، مہران وغیرہ وغیرہ کا دفاع کیا۔ خواتین نے نہ صرف مورچے بنانے،کھانا پکانے اور دیگر امور میں مردوں کی خدمت اور حمایت کی بلکہ فوجی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد انہوں نے بعثی حکومت کے خلاف فرنٹ لائین پر جنگ بھی لڑی۔ ذرائع کے مطابق دفاع مقدس میں جو ایرانی خواتین شہید ہوئی ان کی تعداد چھ ہزار دو سو اٹھائیس بتائی گئی ہے جن میں سے اکثر میزائلوں کی زد میں آ کر شہید ہوئی ہیں، نیز ان کی اکثر عمریں ۱۰ سے ۳۰ سال تک تھیں۔ بعض ذرائع کے مطابق آٹھ سالہ جنگ میں ۱۷۱ خواتین کو اسیر بنایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دفاع مقدس میں جس استقامت اور پائداری کا ثبوت دیا شائد کسی زمانے اور کسی علاقے میں اس طرح کی ثابت قدم کی مثال نہ ملے۔ امام خمینی (رہ) نے اس سلسلہ میں فرمایا: ہمارے لئے اس سے بڑھ کر کون سی فخر کی بات ہو گی کہ ہماری خواتین نے پہلے ستمگر حکومت کا مقابلہ کیا اور اس کو سرنگون کرنے کے بعد عالمی بڑی طاقتوں اور ان کے حامیوں کا مقابلہ کیا اور انہوں نے بہترین پائداری اور استقامت کا ثبوت دیا اور اس طرح کی پائداری،استقامت اور بہادری تاریخ میں نہیں ملتی، دفاع مقدس میں ہماری خواتین کی استقامت اور فداکاری اس قدر تعجب انگیز تھی کہ جسے بیان کرنے سے قلم اور بیان عاجز، بلکہ شرمسار ہیں۔ اس کے علاوہ دفاع مقدس کے دوران ایرانی خواتین نے مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی اور دیگر پہلوؤں میں اپنے نام روشن کئے۔