احلی من العسل

آیا موت شہد سے زیادہ شیریں ہے؟

موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے، یہ الفاظ کربلا کے اُس کم سن تیرہ سالہ شہزادے کے ہیں، جسے دنیا قاسم ابن الحسنؑ کے نام سے یاد کرتی ہے

آیا موت شہد سے زیادہ شیریں ہے؟

 

تحریر: سویرا بتول

 

موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیریں ہے، یہ الفاظ کربلا کے اُس کم سن تیرہ سالہ شہزادے کے ہیں، جسے دنیا قاسم ابن الحسنؑ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ شب ِعاشور امامؑ عالی مقامؑ جوانانِ بنی ہاشم کے شوقِ شہادت کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔ شھادت کی تڑپ اور ولی خدا کی راہ میں تلوار چلائے جانے کی امنگ ایک لمحہ بھی سکون لینے نہیں دیتی۔ کربلا کی مائیں تمام رات اپنے بچوں کو نصرتِ امام ؑ اور رموز ِشھادت کا درس دیتی نظر آتی ہیں۔ اسی اثناء میں جنابِ قاسمؑ امام ِوقت سے پوچھتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیا مولاؑ میں بھی شہید ہو جاؤں گا؟ حسین ابنِ علیؑ پوچھتے ہیں کہ بیٹا آپؑ موت کو کیسا دیکھتے ہیں؟ پھر تاریخ نے لکھا کہ حیدرِ کرارؑ کے پوتے نے تاریخ ساز جملہ کہا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی اور یہ جملہ فقط اسی گھرانے کے جوان کے لب پر آسکتا ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا:*اَحلی مِنَ العَسَلِ* چچا جان "موت میرے لیے شہد سے زیادہ شیریں ہے۔"

اس مختصر سے جملہ میں حیات و موت دونوں کا پورا فلسفہ موجود ہے۔ وہ موت جسے ہم انسانی زندگی کے اختتام سے تعبیر کرتے ہیں، اصل میں وہ دائمی حیات ہے جو دنیا کی لذتوں کو ختم اور خواہشات کو مردہ کر دیتی ہے۔ یہ اپنے دامن میں  دائمی بقا اور لازوال نعمتیں لیے ہوئے ہے۔ جنابِ قاسمؑ جانتے تھے کہ یہ موت عام موت نہیں ہے بلکہ ایسی سعادت ہے، جو دینِ خدا کی حفاظت اور ولی خدا کی نصرت و یاوری کے مقابلے میں حاصل ہوگی اور اس کی لذت و مٹھاس شہد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پھر جنابِ علی اکبرؑ کا یہ جملہ کے باباؑ اگر ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے، بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔

اس جملے سے کیا درس ملتا ہے؟

ہم دنیا کے دلدادہ لوگ ہیں، جنہیں خدا بھی چاہیئے، دنیا بھی اور آخرت بھی۔ آج کا انسان ابھی موت کی حقیقت سے نا آشنا ہے، اس لیے موت سے گھبراتا ہے۔ جس دن موت میں چھپی دائمی حیات کو درک کر لے گا، پھر خود اِس کی تمنا کرے گا، پھر لقائے الہیٰ کا جام پینے کی آرزو دن بدن زور پکڑتی جائے گی۔ پھر قدم زمین پر نہیں رہیں گے۔ دل خود بخود آسمانی پرواز کے لیے بے چین ہوگا، جو تڑپ بندہ مومن کے دل میں لقائے معبود کے لیے ہے، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے، جب انسان صحیح معنیٰ میں حب دنیا اور حب نفس کی قید سے آزاد ہو جائے۔ حقیقی معنی میں خود کو کربلا والوں سے متمسک کر لے اور یہی کربلا اور کربلا والوں کا درس ہے کہ انسان اس دنیا کی بے ثباتی کو نگاہ میں رکھے اور اپنے نفس کو جنت سے کم پر نہ تولے۔ کاش خدا ہمیں وہ باطنی آنکھ عطا کرے کہ موت اور اس میں پوشیدہ راحت و آسودگی کو جان سکیں۔آمین

ای میل کریں