فلسطین

متحدہ عرب امارات اقتدار میں رہنے کے لئے ٹرمپ اور نتن یاہو کا غلام بن چکا ہے

فلسطینی اسلامی جہاد موومنٹ کے سکریٹری جنرل نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اتنے گر چکے ہیں کہ امریکی صدر اور صیہونی وزیر اعظم کے نقش قدم پر قدم رکھ رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات اقتدار میں رہنے کے لئے ٹرمپ اور نتن یاہو کا غلام بن چکا ہے

 فلسطینی اسلامی جہاد موومنٹ کے سکریٹری جنرل نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اتنے گر چکے ہیں کہ  امریکی صدر اور صیہونی وزیر اعظم کے نقش قدم پر قدم رکھ  رہے ہیں۔

 غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اسلامی جہاد موومنٹ کے سکریٹری جنرل نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کے جواب میں کہا ہے کہ وہ اتنے گر چکے ہیں کہ  امریکی صدر ٹرمپ  اور صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے نقش قدم پر قدم رکھ  رہے ہیں اور اقتدار پر باقی رہنے کے لئے امریکہ اور اسرائیل کے نوکر بن چکے ہیں۔ فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کے سکریٹری جنرل ،زیاد النخالہ نے آج جمعہ کو متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے پر ردعمل کا اظہار کیا۔

 یاد رہے کے کل شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ تل ابیب اور متحدہ عرب امارات تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ طے پا چکا ہے۔المیادین نیوز ویب سائٹ کے مطابق  اسلامی جہاد کے سکریٹری جنرل نے اس سلسلے میں کہا: متحدہ عرب امارات اور دشمن کے مابین کل کا معاہدہ عربوں کی بوسیدہ دیوار سے کسی اور اینٹ کے گرنے کے مترادف ہے۔

 زیاد النخلا نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کے انھیں شرم آنی چاہیے وہ سب کچھ پامال کر کے اور اپنے چہروں اور تاریخوں کو فلسطینیوں اور عرب قوموں کے خون سے رنگین کر رہے ہیں اور اقتدار میں رہنے کے لئے اسرائیل اور امریکہ کے غلام اور نوکر بن چکے ہیں انہوں کہا کے عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے قدس کو بے حرمتی کے لئے ان کے پاس چھوڑ دیا ہے۔

یاد رہے کے امریکی صدر نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی حکومت اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لئے ایک معاہدہ طے پایا ہے۔

 یہ معاہدہ جو علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اہم ترین واقعہ ہے اس معاہدہ  نے میڈیا اور ماہرین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے البتہ  بہت سارے عرب میڈیا نے متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے اسرائیل  کے ساتھ خلیج فارس کے عرب ممالک کے تعلقات معمول پر لانے کی طرف پہلا قدم سمجھا ہے

 لبنانی اخبار الاخبار نے بھی ان ذرائع ابلاغ کی طرح معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا ہے کے  کہ اس معاہدے کے اعلان میں بہت سارے پیغامات پوشیدہ ہیں اور معاہدے کے اعلان کو دیکھتے ہوے یہ بات صاف واضح ہوجاتی ہے کے اس معاہدے سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم کے ذاتی مفادات جوڑے ہوئے ہیں۔

 

ادہر ابوظہبی ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے گذشتہ روز اس معاہدے کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ اس معاہدے کے بدلے میں مغربی کنارے میں صہیونی قبضے کے منصوبے کو ختم کردیا جائے گا اور اس نے فلسطین کے مفادات میں رعایت دی ہے  لیکن نیتن یاھو نے واضح کیا کہ اس معاہدے کا مقبوضہ مغربی کنارے پر قبضے کے منصوبے سے کوئی تعلق نہیں اسرائیل کا وہ منصوبہ ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ دیر کے لئے ملتوی کیا گیا ہے۔

ای میل کریں