حضرت علی (ع) اور حضرت زہراء (س)

حضرت علی (ع) اور حضرت زہراء (س) کا عقد

رسولخدا (ص) حضرت زہراء (س) سے رضایت لیکر حضرت علی (ع) کے پاس آئے

حضرت علی (ع) اور حضرت زہراء کا عقد

 

آسمان عصمت و طہارت اور عفت و پاکدامنی کے ان دو نایاب عصمتی گوہر کی شادی کی تاریخ شیعہ میں بہت اہمیت کی حامل ہے اور شیعہ تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے کہ اس عشق و محبت سرشار اور دین الہی کے لئے نثار مبارک رشتہ کا نتیجہ امامت کا گہر بار درخت ہے۔

ازدواج کے وقت حضرت فاطمہ (ع) کی عمر مبارک 9/ یا 10/ سال تھی اور حضرت علی (ع) کی عمر 21/ سال اور 5/ ماہ تھی۔ اس گوہر عصمت اور خزانہ قدرست کے شاہکار سے شادی کرنے کے خواہاں افراد کی طویل فہرست ہے لیکن حضرت رسولخدا (ص) نے سب کو یہی کہہ کر انکار کیا کہ میں اس رشتہ کے بارے میں وحی الہی کا انتظار کررہا ہوں اور آخر میں آپ نے حضرت علی (ع) کا انتخاب کیا اور اپنی لخت جگر حضرت زہراء (س) سے فرمایا: میں تمہیں اس شخص کی زوجیت میں دے رہا ہوں جو روئے زمین پر سب سے بہتر اور اسلام لانے کے لحاظ سے سب پر سبقت کرنے والا ہے۔

ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (ع) سے سنا ہے کہ آپ نے حضرت زہراء (ع) سے شادی کرنے کی درخواست کے بارے میں فرمایا: میں رسولخدا (ص) کے پاس گیا تو آپ نے مجھے دیکھا اور تبسم فرماتے ہوئے کہا: اے علی! تم نے سچ کہا: تمہارا مقام و مرتبہ اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو تم نے بیان کیا ہے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ فاطمہ زہراء کا رشتہ مجھ سے کردیں۔ آپ (ص) نے فرمایا: اے علی! تم سے پہلے چند لوگوں نے رشتہ دیا ہے لیکن میں نے جب بھی زہراء (س) سے بتایا تو انہوں نے انکار کردیا ہے، لہذا تم بھی کچھ دیر انتظار کروں تا کہ میں جا کر ان سے ان کی مرضی جان لوں۔ رسول اکرم (ص)، حضرت زہراء (س) کے پاس گئے تو فاطمہ (س) دیکھتے استقبال کے لئے کھڑی ہوگئیں۔ رسولخدا (ص) نے فرمایا: اے فاطمہ! جواب دیا: فرمائے کیا حکم ہے۔ فرمایا: علی بن ابی طالب (ع) سے اپنی رشتہ داری، ان کی فضلیت اور اسلام میں ان کے سابقہ کے بارے میں تم جانتی ہو اور میں نے خدا سے درخواست کی تھی کہ خدا تمہاری شادی اس ہستی سے کرائے جو روئے زمین پر سب سے بہتر اور اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو اور آج مجھ سے علی نے تم سے شادی کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس پر تمہاری کیا رائے ہے؟ یہ سن کر خاتون قیامت حضرت زہراء (س) خاموش ہوگئیں اور اپنا منہ نہیں موڑا اور رسولخدا (ص) نے آپ کے چہرہ انور پر ناپسندیدگی کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ پھر اٹھے اور کہا: "اللہ اکبر" ان کی خاموشی ان کی رضایت کی نشانی ہے۔  اس کے بعد جبرئیل آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ فاطمہ کی شادی علی سے کردیں کیونکہ خدا نے بھی ان دونوں کی شادی کو پسند فرمایا ہے۔

رسولخدا (ص) حضرت زہراء (س) سے رضایت لیکر حضرت علی (ع) کے پاس آئے اور مسکرا کر فرمایا: اے علی! تمہارے پاس شادی کرنے کا انتظام ہے۔ جواب دیا: میرے والدین آپ پر فدا ہوں میرے بارے میں آپ بہتر جانتے ہیں۔ میری کل کائنات ایک تلوار، ایک زرہ اور ایک اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: تم مرد میدان جنگ اور کارزار کے مجاہد ہو لہذا تمہاری تلوار تمہاری ضرورت ہے اور اونٹ بھی تمہاری زندگی کا جز ہے اس کے ذریعہ تم اپنی معاشی زندگی کا بند و بست کرسکتے ہو اور اپنے اہل و عیال کے کھانے پینے کا انتظام کرسکتے ہو، رہی زرہ، تو اس کو فروخت کرکے تم اپنی شادی کا انتظام کرسکتے ہو۔

حضرت علی (ع) نے زرہ فروخت کردی اور اس کی قیمت رسولخدا (ص) کی خدمت میں لاکر پیش کردی۔ رسول اکرم (ص) نے اس قیمت کو تین حصوں میں تقسیم کیا؛ بعض حصہ زندگی کی ضرورت اور اسباب کے لئے، بعض حصہ شادی میں عطر و غیرہ خریدنے کے لئے اور تیرا حصہ "ام سلمی" کے پاس رکھوادیا کہ شادی کے وقت حضرت کو دیدیں گی تا کہ وہ اس رقم سے اپنے مہمانوں کی میزبانی کریں گے۔

مختصر یہ کہ رسولخدا (ص) نے مسجد میں مہاجر و انصار کو بلا کر علی (ع) اور فاطمہ (س) کا قعد پڑھا، اس کے بعد علی (ع) نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا: اللہ کے نبی (ص) نے فاطمہ سے میرا عقد کردیا ہے اور میری زرہ مہر کے عنوان سے قبول فرمائی ہے۔ آپ حاضرین، رسول اللہ (ص) سوال کرلین اور اس پر گواہ رہیں۔ حاضرین نے پیغمبر (ص) سے سوال کیا اور جواب کے بعد سب نے ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی کہ خدا آپ کو یہ شادی مبارک کرے اور ہمیشہ آپ دونوں کے درمیان الفت و محبت قائم رہے۔

اس شادی سے مندرجہ ذیل سبق حاصل ہوتا ہے:

1۔ خود لڑکا یا لڑکے والے کسی لڑکی کے رشتہ کے لئے جائیں۔

2۔ شادی بیاہ کو بہت ہی آسان بنایا جائے۔

3۔ لڑکی کی مرضی جانی جائےاور اس کی رائے لی جائے اور لڑکے کے بارے میں سب کچھ بتایا جائے۔

4۔ لڑکی کا مہر کم سے کم ہو۔

5۔ علم و معرفت، تہذیب و تمدن اور ایمان و عمل کے لحاظ سے اس کے کفو اور ہم پلہ سے رشتہ کی جائے۔

6۔ شادی بیاہ میں کسی قسم کا دباؤ اور زبردستی نہ ہو۔

7۔ اسلامی آداب و رسوم کے مطابق پر کام انجام دیئے۔

8۔ لڑکی کی زیادہ سے زیادہ عظمت اور فضیلت اجاگر کی جائے۔

9۔ اس مبارک موقع پر اسلامی حدود میں رہ کر جشن و سرور کی محفل سجائی جائے۔

ای میل کریں