غزوه خندق
17/ شوال سن 5 ھ ق میں غزوہ خندق جسے "جنگ احزاب" بھی کہا جاتا ہے؛ ہوئی ہے۔ احزاب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف کفار و مشرکین نے سارے قبائل سے مدد مانگی تھی اور ہر قبیلہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا۔ بنی نضیر جسے رسولخدا (ص) نے مدینہ سے باہر کردیا تھا نے آنحضرت (ص) کے بغض و عناد میں مکہ کے کفار سے مل گیا تھا اور ان سے معاہدہ کیا تھا کہ رسولخدا (ص) سے جنگ میں ہم لوگ تم لوگوں کا ساتھ دیں گے اور ہم فکر اور ہم خیال ہو کر رسولخدا (ص) سے جنگ پر آمادہ ہوگئے۔
اس بات کی جب رسولخدا (ص) کو خبر ملی تو آپ نے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ کیا تو سلمان فارسی نے کہا: مدینہ کے ارد گرد خندق (گڑھا) کھود دیا جائے اور خندق کھودی گئی۔ اور جب یہ لوگ آئے تو خندق کے اس پار ہی رہے کیونکہ مسلمانوں کو ان سے زیادہ خطرہ اور خوف تھا۔ یہ جنگ 20/ دن سے زیادہ جاری نہ رہی۔
آخر کار عمرو بن عبدود، نوفل بن عبداللہ، ھبیرہ بن ابی وھب، عکرمہ بن جہل اور جزار بن خطاب جیسے لوگ جنگ کے لئے آمادہ ہوئے اور اپنے اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر جس جگہ فاصلہ کم تھا وہاں سے چھلانگ لگا کر اس پار آگئے اور عمرو بن عبدود نے مبارزہ طلبی کی۔ اس کی مبارزہ طلبی سے لوگوں میں وحشت پھیل گئی کیونکہ یہ ہزار سوار کے برابر جانا جاتا تھا۔ کوئی اس کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوا سب سر جھکائے تھے۔ عمر بن خطاب بھی کافی خوفزدہ تھا لیکن اصحاب کی وجہ سے کچھ نہیں بولا۔ عبدالرحمن بن عوف نے لوگوں سے کہا: یہ عمرو بن عبدود شیطان کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا لہذا یہی بہتر ہے کہ ہم سب ایک ہوکر محمد کو دست بستہ اس کے حوالہ کردیں تا کہ وہ ان کا کام تمام کردے اور ہم لوگ جا کر اپنی قوم سے مل جائیں اور اچھی اور پرسکون زندگی گذاریں۔
یہ سن کر رسولخدا (ص) نے فرمایا: کوئی دوست نہیں ہے کہ اس دشمن خدا کا سر قلم کرے اس وقت شیر خدا حضرت علی (ع) نے عرض کیا: میں اس سے مقابلہ کروں گا۔ حضرت خاموش ہوگئے۔ عمرو نے دوسری بار مبارزہ طلبی کی اور داہنے بائیں سے اپنے گھوڑے کو دوڑانا شروع کردیا۔ جب عمرو نے اس طرح کی حرکت کرنی شروع کردی تو حضرت علی (ع) نے جنگ کی اجازت مانگی لیکن رسولخدا (ص) خاموش رہے اور عمرو کی طاقت اور اس کے چرچا کا ذکر کیا۔ حضرت علی (ع) نے کہا: یا رسول الله! آپ مجھے اجازت دیجئے تا کہ اس سے جنگ کروں۔ اجازت ملی اور علی (ع) میدان کارزار کی طرف روانہ ہوگئے اور عمرو سے مقابلہ میں زمین کو تنگ کردیا اور رجز میں کہا: جلدی نہ کر میں تیرے مقابلہ کے لئے آگیا ہوں اور تیرا جواب دوں گا۔
اس وقت رسولخدا (ص) نے فرمایا: آج کل ایمان، کل کفر کے مقابلہ میں جارہا ہے۔ حضرت علی (ع) میدان میں گئے اور عمرو کو تین باتوں میں سے ایک بات ماننے کی دعوت کی: اسلام لے آ، یا رسولخدا (ص) سے جنگ نہ کر یا گھوڑے سے نیچے آجا۔ عمرو نے تیسری بات مان لی لیکن اندر اندر علی (ع) سے جنگ کرنے سے گھبرایا تھا لیکن کہا: اب تک میدان جنگ میں تمہیں مردان جنگ سے واسطہ نہیں پڑا ہے، تمہارے منہ سے ابھی بھی دودھ کی بو آرہی ہے لیکن شیر الہی نے اس کا مقابلہ کیا اور اس کل شرک کا خاتمہ کردیا، مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑی اور اسلامی لشکر کامیاب ہوا۔