بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی

یورپی ٹروئیکا نے جوہری معاہدے سے متعلق اپنا رویہ کیوں بدلا؟

یورپی ممالک نے تو ایران جوہری معاہدے سے سب سے زیادہ معاشی مفادات اٹھائے اور واشنگٹن نے اس بات کیخلاف احتجاج بھی کیا

یورپی ٹروئیکا نے جوہری معاہدے سے متعلق اپنا رویہ کیوں بدلا؟

ارنا- بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد کی منظوری میں یورپی ٹروئیکا کے کردار کی کوئی منطقی حکمت عملی کی تلاش مشکل ہے؛ اس لیئے اکثر تجزیہ کار اس سوال کے جواب کو پانے کے خواہاں ہیں کہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈیزائن کردہ نئے کھیل میں شریک ہونے کے کیا کیا مقاصد ہیں؟ وہ شخص جو ان دنوں امریکی سیاست کے گھاٹی کے کنارے کھڑا ہے۔

 

یورپی ممالک نے تو ایران جوہری معاہدے سے سب سے زیادہ معاشی مفادات اٹھائے اور واشنگٹن نے اس بات کیخلاف احتجاج بھی کیا؛ لیکن وہ جوہری معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی کے بعد امریکی دباؤ کے تحت ایرانی مارکیٹس کو چھوڑ کے چلے گئے جس کے نتیجے میں ایران اور یورپی ممالک کے درمیان دیگر شعبوں میں تجارتی اور معاشی لین دین کی فضا بھی برہم ہوگئی۔

 

لیکن وہ سوال ابھی بہت سارے سیاسی تجزیہ کاروں کے ذہن میں اٹھایا گیا ہے یہ ہے کہ یورپی ممالک (بغیر برطانیہ کے) اس بات کے پیش نظر کہ ٹرمپ کو ابھی اندرون ملک سمیت بین الاقوامی سطح پر میں اچھی صورتحال نہیں ہے پھر بـھی اس کے ڈیزائن کردہ کھیل میں شریک کیوں ہوگئے ہیں؟

 

اس سوال کے جواب کو پانے کیلئے چند اہم اور بنیادی نکات کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے؛ مثال کے طور پر، یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا اور براعظم پر نئے کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور معاشی اور سلامتی کے شعبوں میں چین سے یورپ کی پسماندگی، اس اتحاد کو پہلے کی نسبت کمزور حالت میں ڈال چکی ہے۔

 

جوہری معاہدے سے متعلق یورپی ٹروئیکا کے رویے میں تبدیلی سے متعلق اس بات کو نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اب ایران پر اسلحے کی پابندی کے خاتمہ قریب ہونے کا ہے؛ جس میں پـھر توسیع دینے کیلئے امریکہ نے جوہری معاہدے کے فریم روک کے اندر ایک بین الاقوامی کاروائی کا بند وبست کیا ہے۔

تو ایسی صورتحال میں ایسا لگتا ہے یورپین دو وجوہات کی بناپر جوہری معاہدے سے متعلق اپنے رویے میں تبدیلی لائی ہیں؛ پہلے یہ کہ وہ مستقبل میں ایرانی اسلحے کی مارکیٹ میں اتنا زیادہ حصہ نہیں لے سکتے کیونکہ ان کے اندازوں کے مطابق، چین اور روس، ایران کیلئے محفوظ بازار سمجھے جاتے ہیں، اور پابندیاں اٹھانے کے علاوہ، ایران، عالمی منڈیوں سے امریکی فوجی ہتھیار بھی خرید سکتا ہے؛ تو کیا یورپ خود کو اس حوالے سے ایک ہارنے والے کی حیثیت سے دیکھتا ہے؟

 

دوسری وجہ یہ ہے کہ یورپی ممالک حالیہ دنوں میں قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت اور تہران اور واشنگٹن کے مابین کسی بھی نئے مذاکرات کے امکان کے بارے میں افواہوں اور مباحثوں سے گھبراتے ہوئے نظر آتے ہیں؛ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپی ممالک جو ڈالر اور اسرائیلی اور سعودی لابی کے دباؤ کو برداشت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اب وہ کسی ممکنہ معاہدے پر پریشان ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا ہے۔

ٹرمپ اور ان کی انتہا پسند ٹیم ایک اہم مقصد پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آئی اے ای اے کے ذریعے ایران کے معاملے کو سلامتی کونسل میں لانے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ مقصد نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات میں فتح ہے جس سے یورپی ممالک یقینا بے خبر نہیں ہیں۔

 

تو ایسا لگتا ہے کہ یورپی ممالک ٹرمپ کے اس ڈیزائن کردہ گیم میں حصہ لے کر اس کے سامنے ذلت سے سر جھکا کے بیٹھ گئے ہیں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ مشرقی دیوقامتوں کے مقابلے میں اپنی سلامتی کے بارے میں یا ایران اور امریکہ کے تعلقات میں آئندہ کے کسی بھی حالات کے بارے میں پریشان ہیں، لیکن جس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک گھاٹی کے کنارے پر کھڑے ہوئے شخص پر بھروسہ کیا ہے۔

ای میل کریں