شہادت درس حریت اور آزادی
تحریر: مظفر حسین کرمانی
کسی بھی مکتب (Ideology) یا اس مکتب کے پیروکاروں پر ایسے ایام بھی آتے ہیں، جہاں اس مکتب کو تحریفات، شبہات، دشمنوں کے مختلف پروپیگنڈوں سے بچانے کی خاطر یا اس مکتب کے پیروکاروں پر دشمن کی مسلحانہ یلغار سے انہیں بچانے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ افراد میدان میں آئیں، جو اس مکتب کا علمی، نظریاتی اور مسلحانہ دفاع کریں اور اس مدافعانہ عمل میں اپنی جان تک کی پرواہ نہ کریں، تاکہ اس مکتب کی نورانیت اور حقیقی چہرہ ان تحریفات اور شبہات میں گم نہ ہو جائے یا دشمنوں کی مسلحانہ یلغار کی زد میں ان کی جان، اموال اور ناموس کی بے حرمتی نہ ہونے پائے۔
اسلام جو کہ مکتب خدا اور خالق بشريت ہے، اس لئے اس کے اندر بشر کی اپنی ذہنی استعدادوں کی بنیاد پر بنائے گئے مکاتب سے زیادہ جامعیت پائی جاتی ہے۔ انسان کے ہر شعبے، امور اور مختلف مواقع پیش آنے کی صورت میں یہ الہیٰ مکتب انسان کی رہنمائی کرتا یے، ایسی صورتحال جب مکتب اسلام پر پیش آئے، جہاں مکتب اسلام کی ساکھ کو خطرہ ہو یا اس کے پیروکاروں کی جان، اموال اور ناموس کی عزتیں دشمن کی نگاہ میں ہوں، خواہ دشمن بیرونی ہو یا ان کے زر خرید نام نہاد مسلمان ہوں تو یہ اپنے پیروکاروں کو دفاع کا حکم دیتا ہے اور اس مدافعانہ عمل میں جو اپنی جان گنوا دے، اسے شہید کے لقب سے نوازتا یے اور دوسروں کو بھی اس درس شہادت کی رغبت دیتا یے۔
شہادت درحقیقت کسی بھی مکتب کا بیمہ (insurance) ہے۔ اسلام نے فکر شہادت پیش کرکے اپنے مکتب کو بیمہ کر دیا ہے کہ جب بھی اسلام یا مسلمانوں پر مصیبت آئے تو ایسے سر بکف افراد جنہوں نے اپنے سروں پر کفن باندھ لیا ہوتا یے، اسلام کی بقاء اور مسلمانوں کی حفاظت کیلئے وہ میدان میں وارد ہوتے ہیں اور اسلام و مسلمانوں کو ان آفتوں سے بچاتے ہیں۔ ہر ایک کی آرزو ہوتی ہے کہ وہ راہ خدا میں شہید ہو جائے۔ مجھ جیسا دنیا و اس کی لذتوں میں غرق جوان بھی یہ آرزو کرتا یے کہ جس نے اپنی کئی چیزوں سے ناف باندھ رکھی ہوتی ہے، جبکہ مقام شہادت تک پہنچنے کیلئے اپنے اندر حریت و آزادی پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس طرح سے کوئی چیز اس مقام تک پہنچنے میں حائل اور رکاوٹ نہ بنے۔ پروردگار سے دعاگو ہوں کہ وہ مجھ جیسے دنیا کی لذتوں میں غرق جوان اور جو بھی آرزو شہادت کرتا ہے، اسے اس مقام عالی تک پہنچا دے۔(آمین)