آزادی القدس تحریک

آزادی القدس تحریک

قبلۂ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے

آزادی القدس تحریک

تحریر: سید پسند علی رضوی

 

قبلۂ اول کا تقدس اس کے نام سے ہی عیاں ہے اور اس کی تقدیم و تقدس کیلئے یہ امر کافی ہے کہ اسے مسلمانان عالم کے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہے۔ خدا کے اس مقدس گھر کی جانب رخ کرکے اولین و سابقین مومنوں نے امام المرسلین ۖ کی پیشوائی میں نماز ادا کی۔ خداوند قدّوس نے اپنے محبوب کو معراج پر لے جانے کیلئے روئے زمین پر اسی مقدس مقام کا انتخاب کیا۔ جب سے اس کی بنیاد پڑی ہے، خاصان خدا بالخصوص پیغمبروں نے اس کی زیارت کو باعث افتخار جانا ہے۔ بیت المقدس بارگاہ خداوندی کے ان اولین سجدہ گزاروں اور توحید پرستوں کا مرکز اول ہے، جن کے سجدوں نے انسانیت کو ہزار سجدے سے نجات دلا دی۔ القدس جو کہ مذہبی اہمیت کا بھی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی ثقافت کا بھی ایک عظیم شاہکار ہے۔ جس کے حوالے سے روایات میں ملتا ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمر اکرم ؐ کی اولاد سے ایک فرزند جس کا نام حضرت امام مہدی ہوگا، وہ ظہور کریں گے اور قبلہ اول بیت المقدس میں امامت فرمائیں گے، جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ظہور کریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے۔

اس روایت کو پڑھنے کے بعد قبلہ اول کی مذہبی اہمیت مسلمانوں اور عیسائیوں کے نزدیک اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، تاہم یہ ایک ضروری امر ہے کہ قبلہ اول بیت المقدس کو آزاد کروانا اور القدس کی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونا ہر مسلمان کا شرعی اور اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:’’جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کے حالات کے بارے میں کوئی فکر نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں۔‘‘ لہذا امام خمینی نے صیہونیزم اور اسرائیل کے خلاف جو تحریک شروع کی ہے، وہ یقیناً رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسی قول کا نتیجہ ہے اور ان کے امر کی تعمیل کیلئے امام خمینیؒ اٹھے ہیں اور اس کی تعمیل تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اگر ہم فلسطینیوں کی سپورٹ کئے بغیر، فلسطینیوں کا درد رکھے بغیر، نمازیں پڑھتے ہیں تو ان نمازوں کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ہم روزے رکھتے ہیں تو ہمارے روزوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر مسلمانوں کے حالات سے آگاہی نہ ہو، ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو یہ فردی عبادات ہمارے کسی کام نہیں آئیں گی، جب تک ہم اجتماعی عبادات کو انجام نہیں دیتے۔

اجتماعی عبادات میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا مسئلہ ہے، فلسطینی ملت کا مسئلہ ہے۔ خود فلسطین کا مسئلہ ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے، جو تمام عالم اسلام کے مفادات کا مرکز ہے۔ اگر ہم نے فلسطین کی حفاظت کی تو عالم اسلام کے مفادات کی حفاظت کی اور اگر ہم نے فلسطین کے مسئلے سے چشم پوشی کی تو ہم نے عالم اسلام کے مفادات سے چشم پوشی کی۔ لہذا فلسطینی عوام کی مدد اور ان کی کمک، ان کیلئے آواز بلند کرنا، ان کیلئے نعرہ بلند کرنا، ان کے حق میں نعرہ بلند کرنا، اسرائیل کے خلاف نعرہ بلند کرنا، امریکہ اور اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگانا، بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر ہم یہ کرسکے تو یقیناً عالم اسلام اجتماعی لحاظ سے بہت ترقی کرے گا اور استحکام حاصل کرے گا اور اگر ہم اپنے اس وظیفے کو انجام دینے میں ناکام رہے تو اس کے نتیجے میں تمام عالم اسلام کمزور ہوگا، اسلامی ممالک کمزور ہوں گے اور جیسا کہ عرض کرچکا ہوں اسرائیل کا ہدف صرف فلسطین نہیں تھا بلکہ آپ نے دیکھا مصر کے علاقے پر بھی اس نے قبضہ کیا، اردن کے علاقے پر بھی قبضہ کیا، لبنان کے پورے علاقے پر انہوں نے قبضہ کیا، لبنان کے اوپر قبضہ کر لیا تھا۔

حزب اللہ کی برکت سے اسرائیل پیچھے ہٹا ہے اور ابھی شیبا فارمز تک محدود ہوگیا ہے۔ لہذا اگر ہم اس صیہونی سرطانی ٹیومر کا مقابلہ نہیں کریں گے اور اس کو اکھاڑ کر نہیں پھینکیں گے تو آہستہ آہستہ تمام اسلامی ممالک کمزور ہو جائیں گے۔ لہذا ہم سب کا شرعی اور قانونی فریضہ بنتا ہے کہ ہم فلسطین کا دفاع کریں، فلسطین کے حق میں ان کی حمایت کریں، ان کیلئے نعرے لگائیں اور اسرائیل کے خلاف قیام اور عملی جدوجہد کریں۔ یوم القدس کے حوالے سے بھی امام خمینی نے جو اعلان کیا ہے تو انہوں نے ہمارے لئے بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کرسکیں۔ یہ ایک واجب شرعی اور شرعی ذمہ داری ہے، جس طرح سے نماز ہم پر واجب ہے، روزہ ہم پر فرض ہے، حج ہم پر فرض ہے، اسی طرح سے فلسطینی عوام اور قوم اور بیت المقدس کا دفاع کرنا اور ان کی حمایت کا اظہار کرنا ہم پر واجب ہے۔

جہاں تک مسئلہ فلسطین اور پاکستان کی بات ہے تو حکومتی سطح پر تو تاحال پاکستان نے اسرائیل کی غاصب ریاست کو تسلیم نہیں کیا، جو ایک مثبت عمل ہے، تاہم دوسری طرف پاکستان کے عوام ہیں، جو فلسطین کے عوام سے والہانہ محبت و عشق رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوامی دباؤ کے باعث پاکستان کی حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتی۔ البتہ ماضی میں چند ایک ایسے خائن حکمران بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ بیک ڈور چینل کے ذریعے یا براہ راست غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھے جائیں، تاہم سلام ہو ملت عظیم پاکستان پر کہ جس نے ہمیشہ ایسے خائن حکمرانوں کی سرزنش کی اور فلسطین و القدس کو اپنے دلوں میں زندہ رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے نام سے ایک نظریاتی ملک بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جو نظریات کے نام پر سامنے آیا، صیہونی اور یہودی نظریات کی بنیاد پر، دوسری طرف پاکستان ایک ایسا اسلامی ملک ہے، جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ یہاں کی اقدار اور مذہبی عادات و رسوم دیگر اسلامی ممالک کے درمیان ایک نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ یہاں کی مذہبی اقدار، لوگوں کے درمیان پائے جانے والے مذہبی جذبات، ہمارا لباس، ہمارا رہن سہن، ہمارا پورا کلچر مذہبی ہے۔ اس کے علاوہ خود پاکستان نے جو ترقی کی، اس میں ایک اہم مسئلہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ امریکہ کیلئے بھی انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جس دن سے پاکستان ایٹمی صلاحیت کا حامل ہوا ہے، امریکہ کو کچھ زیادہ ہی تشویش ہو چلی ہے اور اسی طرح یورپ اور بالخصوص اسرائیل کو تو زیادہ ہی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ جہاں جہاں بھی ایٹمی طاقت موجود ہے، اس کو یورپ، امریکہ اور صیہونی طاقتیں کسی بھی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایسی جگہوں میں سے ایک پاکستان ہے۔ اسرائیل کو یہ بات معلوم ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت ایک نہ ایک دن غاصب اسرائیل جو کہ لاکھوں فلسطینیوں کا خون چوس رہا ہے، کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے۔ لہذٰا عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے روز اول سے ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کر رکھی ہے، جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کو عروج پر پہنچانے میں امریکہ نے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے بھرپور کام کیا ہے اور پاکستان میں لسانی، فرقہ وارانہ اور غرض ہر نوعیت کے اختلافات کو ہوا دی ہے، تاکہ پاکستان کے لوگ اسی میں الجھے رہیں، مسئلہ فلسطین و آزادئ القدس کی طرف توجہ مبزول کرنے سے قاصر رہیں، مگر ناکام رہتے آرہے ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام یوم نکبہ اور یوم القدس کو گھروں سے نکل کر بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کے لئے نکلنے والے جلسوں، جلوسوں میں شریک ہوکر آمریکہ و اسرائیل کو اپنے ہاتھوں سے شکست دیں۔

ای میل کریں