قرآن مجید، عطردان الٰہی
تحریر: مرزا محمد حیدر، (لکھنؤ)
موسم بہار کی خوشگواری اور تازگی ہمارے تن من دونوں کو تروتازہ کر دیتی ہے مگر افسوس وقت کی زنجیر نے اسے بھی باندھ رکھا ہے، فقط اسکی خوشگوار یادیں ہی ہمارے ذہنوں میں باقی رہتی ہیں لیکن ایک عطر ساز اس تازگی کو ایک صندوقچہ میں قید کرتا اور اس مٹ جانے والے موسم کو سدا بہار بنا دیتا ہے۔ جب کبھی اس صندوقچہ کو کھولا جاتا ہے، اس کی تازگی دل و دماغ پر اثر چھوڑتی ہے۔ بالکل اسی طرح پروردگار عالم نے اس کائنات کی تمام تر خوشگوار یادوں کو ایک صندوقچہ میں داخل کر کے اپنے محبوب بندوں کے حوالے کر دیا، جسکا نام قرآن مجید ہے۔ یقینا یہ ایک ایسی کتاب ہے جسمیں پروردگار نے انسانی زندگی کے متعلق تمام بنیادیں رکھی ہیں۔ چاہے نظام تخلیق اور تسویہ ہو یا پھر نظام ہدایت اور قدرت۔ دیکھا جائے تو عطر سازی کا ایک مقصد تسکین و آرام رسانی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" یاد خدا دلوں کے آرام و سکون کا سبب ہے۔ (سورہ رعد آیت ؍۲۸)
آج کا انسان سکون قلب کی خاطر دنیا کی ہر نعمت داؤ پہ لگانے سے نہیں کتراتا، خالق حقیقی نے ہماری تخلیق کے ساتھ ساتھ اس قلبی سکون کا انتظام کیا اور کہا اگر تم قلبی سکون چاہتے ہو تو میرا ذکر کرو۔ اب یقیناً ذہن میں یہ سوال موجود ہوگا کہ ذکر الٰہی کا سکون کے ساتھ بھلا کیا ربط ہے؟ اگر ہم اپنی روزمرہ کی زندگی کے تجربات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے جذبات اور جسم میں ایک گہرا تعلق ہے، مثلاً بھوک میں غصہ آنا، غم اندوہ میں سر میں درد ہونا، کسی بزرگ شخصیت کے سامنے ہکلانا اور سہم سا جانا۔ ان تمام جذبات کا تعلق دماغ سے ہے اور دماغ جسم کا محافظ ہے، جیسے دماغی فتور انسان کے جذبات پر برا اثر ڈالتا ہے ویسے ہی اچھے خیالات جذبات کو نکھارتے ہیں۔ جذبات کا سیدھا اثر انسانی جسم پر پڑتا ہے۔ چڑچڑاپن، بدمزاجی، بےچینی کا اگر منبع و مصدر تلاش کیا جائے تو وہ دماغی فتور ہے۔ اگر ’مراقبہ‘ انسان کا پیشہ بن جائے تو یقینا عمدہ تخیلات کے تحت انسان کے جذبات اور جسم دونوں میں سدھار آجائے گا۔ یعنی یہ بات تو واضح ہے کہ مراقبہ، ذہنی دباؤ سے نجات کا واحد راستہ ہے۔
Science Journalis Daniel Goleman کا اپنی کتاب destructive emotions میں یہی کہنا ہے وہ کہتا ہے: ’تیس سالہ تجربے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مراقبہ، ذہنی دباؤ کے لئے ایک بہترین علاج ہے۔‘‘ اب جبکہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مراقبہ یعنی صحیح غور و فکر انسان کے ذہنی دباؤ کا بہترین علاج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مراقبہ کرنے کا صحیح طریقہ کیا ؟یہ بات واضح ہے کہ کسی بھی شے کو صحیح ہونے کیلئے اس کا دوبارہ ابتداء سے شروع ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ چاہے دنیاوی مشین ہو یا صنعت خدا۔ اگر اس کو گھماکر ابتدائی چھور پہ رکھ دیا جائے تو تمام چیزیں درست کارکردگی انجام دینے لگیں گی۔ وہ بالکل اس نو مولود بچہ کی طرح ہوگا جو اضطراب اور بے سکونی کا مطلب بھی نہیں جانتا۔ ایک کورے کاغذ کی مانند جس پر ماحول کی غلط نقش کشی نہیں ہوئی ہے۔ پروردگار اپنی یاد کے ذریعے انسان کو اسکے ابتدائی ایام میں لے جاتا ہے تاکہ اسے یہ احساس ہو جائے کہ وہ کیا تھا اور اسکی ضروریات کیا ہیں اور وہ کن چیزوں کی خاطر مضطرب اور پریشان ہوتا ہے اور یقینا یاد خدا کے علاوہ کوئی راہ نہیں جو اسے سکون عطا کرسکتی ہے۔
عطر سازی کا ایک دوسرا مقصد زیبائش اور آرائش ہے۔ الٰہی عطر دان کا بھی مقصد تمام انسانوں کی زیبائش اور سلامتی ہے۔ پروردگار نے اپنی کتاب میں نظام حیات کے تمام رموز و اسرار بیان کئے ہیں۔ یہ بھی بیان کیا کہ اس نے کس طرح انسانی جسم کے ظاہر و باطن دونوں کو سنوارا ہے۔ انسانی جسم میں جو نظام حیات ہے جسے سائنس دانوں نے پچھلے ۲۵ سالوں میں ڈھونڈ نکالا اور سائنس کا ایک نیا پہلو genetic science کے نام سے ابھر کے سامنے آیا، اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کائنات میں تقریباً ۱۲۶ کیمیائی عناصر chemical elements ہیں، جن میں سے تقریباً ۸۱ عناصر انسان کے جسم میں پائے جاتے ہیں، ان میں سے ۱۹عناصر انسانی زندگی کے لئے بہت اہم ہیں جن کی کمی بیماری کا سبب بنتی ہے۔ کیلشیم، فاسفورس، میگنیشیم، سوڈیم، پوٹاشیم، کلورین، آئرن، سلفر، فلورین، ایلومینیم مناسب مقدار میں انسانی جسم میں موجود ہیں۔ ہر ایک اپنی ایک خاص کارکردگی انجام دے رہا ہے اور انسان کے جسم کی سلامتی کا سبب ہے۔ بہرکیف، پروردگار عالم نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اس میں ایسی صلاحتیں بھی ودیعت فرما دی ہیں جن کے سبب وہ زندگی کے ایام کو آسانی سے گزار سکتا ہے۔ قرآن مجید، ہمارے لئے عطردان الٰہی بھی ہے اور نظام حیات کا صحیفہ بھی۔ اس سے ہمارے دل کو تسکین اور روح کو بلندی عطا ہوتی ہے۔ اس لیے جتنا ہو سکے، قرآن کی تلاوت کریں اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں کامیابی عنایت فرمائےگا۔