شیخ سعدی کی عظمت بیانی

شیخ سعدی کی عظمت بیانی

سعدی خانقاہ میں زندگی گذارتے تھے اور وہیں دفن بھی ہوئے ہیں

شیخ سعدی کی عظمت بیانی

 

ایرانی کلینڈر میں 20/ آپریل کی تاریخ شیخ سعدی کی عظمت بیانی اور ان کی یاد منانے کے دن سے جانا جاتا ہے۔ ثقافت کے ماہرین انھیں استاد سخن کے نام سے جانتے ہیں۔

شیخ مصلح الدین سعدی، فارسی ادب کے آسمان پر فردوسی کے بعد سب سے بڑے فارسی شاعر ہیں جنہوں ںے خیرہ کن نور سے فارسی ادب کو روشن کیا ہے۔ اس نور کی تابانی اور درخشندگی اتنی زیادہ ہے کہ 7/ صدیاں گذرنے کے بعد بھی اس کی تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور یہ اثر جب تک پارسی باقی ہے یہ بھی باقی رہے گا۔ گلستان کتاب کے آغاز میں سعدی کہتے ہیں: میں نے ایک رات اپنے گذرے ہوئے ایام کے بارے میں غور کیا اور تلف کی ہوئی عمر پر افسوس کیا اور شعر کہا: "ہر دم از عمر می رود نفسی – چون نگہ می کنم نماندہ بسی۔ جب بھی عمر کا حصہ گذر جاتا ہے اور دیکھتا ہوں تو کچھ بچا ہی نہیں ہے۔

سعدی شیراز شہر کے علماء گھرانے میں پیدا ہوئے۔ شاہ کی حکومت لکھتی ہے: کہتے ہیں شیخ کے والد اتابک کے ملازم تھے۔ یعنی اتابک سعد بن زنگی۔ سعدی عہد طفولیت ہی سے اپنے والد کی تربیت میں ہے اور ان کی ہدایت و نصیحت سے مالامال ہوئے لیکن بچپنے میں سعدی یتیم ہوگئے۔ انہوں نے ادبی اور شرعی علوم شیراز میں حاصل کئے۔ اس کے بعد سعدی شیرازی اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے لئے بغداد گئے۔ اس شہر کے نظامیہ مدرسہ میں اپنی تعلیم جاری رکھا۔ بغداد میں کچھ سال گذارنے کے بعد سعدی اعلی مدرسوں اور زمانہ کے بزرگوں سے کسب فیض کرنے کے لئے اوقات کی تقسیم کی اور ان مرحلوں کو طے کرنے کے بعد سعدی نے حجاز، شام، لبنان اور روم کا طولانی سفر شروع کیا اور خود سعدی کے بقول آپ نے دنیا کے آخر تک گئے اور ہر شخص کے ساتھ کچھ دن گذارنے اور ہر گوشہ میں مستفید ہوئے اور ہر خرمن سے ایک خوشہ چنا۔

بہت سارے فارسی شعراء اپنے اپنے زمانہ میں کافی شہرت رکھتے تھے لیکن سعدی کے برابر کسی کی شہرت نہیں تھی۔ یہ ایران اور ایران کے باہر دیگر ممالک میں بھی کافی شهرت رکھتے تھے اور مایہ ناز شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے۔

سعدی کے دو قسم کے آثار ہیں جن سے آج بھی فارسی ادب میں استفادہ کیا جاتا ہے: منظوم آثار اور منثور آثار۔ ان کے نثر میں جو آثار ہیں وہ گلستان سعدی کے نام سے مشہور ہے اور منظوم آثار میں "کلیات سعدی نامہ" ہے جو بعد میں "بوستان" کے نام سے مشہور ہوا ہے۔

سعدی خانقاہ میں زندگی گذارتے تھے اور وہیں دفن بھی ہوئے ہیں۔ بعد میں ان کے مرقد کو ایران کے آثار میں شامل کردیا گیا ہے اور ایک خوبصورت مزار بنا ہوا۔ ایران کے لوگ اپنے عظیم القدر اور ممتاز شخصیتوں کی کافی قدردانی کرتے ہیں اور ان کی یادیں ہمیشہ تازہ کرتے رہتے ہیں، ان کی خدمات کو سراہتے اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ یہ اس قوم کی پرانی تاریخ ہے اور ہر قوم و ملت کو یہی  چاہیئے کہ وہ اپنے نامور اور بلند کارنامہ کرنے والے افراد کی قدردانی کرے اور ان کی یادوں کو تازہ کرتی رہے۔ اس سے ملک اور قوم اور علاقہ کا وقار بڑھتا ہے۔

ای میل کریں