ایام جوانی؛ توبہ کی بہار

ایام جوانی؛ توبہ کی بہار

توبہ یعنی اپنی اصلی روحانیت اور نور فطرت کی جانب بازگشت

امام خمینی (رح) کے اخلاقی نظریات پر ایک طائرانہ نظر

 

ایام جوانی؛ توبہ کی بہار

 

توبہ یعنی اپنی اصلی روحانیت اور نور فطرت کی جانب بازگشت۔ جب انسان ایسا کرتا ہے تو پار اس کا صفحہ دل کمالات اور اس کی اضداد سے خالی ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: گناہ سے توبہ کرنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جس نے کوئی گناہ نہ کئے ہوں۔ پس اندازہ ہوا کہ "توبہ" احکام اور طبیعت کے نتائج سے روحانیت اور فطرت کے احکام کی طرف پلٹنا ہے۔ چنانچہ "انابہ" کی حقیقت فطرت اور روحانیت سے پلٹ کر خدا کی طرف آنا اور نفس سے منزل مقصول کی جانب سفر اور ہجرت کرنا ہے، لہذا مقام توبہ، مقام انابہ سے پہلے ہے۔

توبہ اور اس کے مشتقات قرآن میں 87 مرتبہ استعمال ہوئے ہیں اور قرآن کے نویں سورہ کو توبہ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن میں توبہ کی قبولیت کو ان اشخاص کے ساتھ مختص کیا گیا ہے جنہوں نے نادانی میں کسی گناہ یا معصیت کا ارتکاب کیا ہو لیکن جیسے ہی وہ اس گناہ اور معصیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو توبہ اور استغفار کرتے ہیں۔إنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّه لِلَّذینَ یعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَہالَةٍ ثُمَّ یتُوبُونَ مِنْ قَریبٍ فَأُولئِک یتُوبُ اللَّه عَلَیهمْ وَ کانَ اللَّه عَلیماً حَکیماً(ترجمہ: توبہ قبول کرنے کا حق اللہ کے ذمہ صرف انہی لوگوں کا ہے جو جہالت (نادانی) کی وجہ سے کوئی برائی کرتے ہیں پھر جلدی توبہ کر لیتے ہیں یہ ہیں وہ لوگ جن کی توبہ خدا قبول کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔) (نساء، 17) لیکن وہ لوگ جو موت کے آثار نمایاں ہونے تک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور جب موت کے آثار نمودار ہوتے ہیں تو توبہ کرتے ہیں، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہےوَ لَیسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذینَ یعْمَلُونَ السَّیئاتِ حَتَّی إِذا حَضَرَ أَحَدَهمُ الْمَوْتُ قالَ إِنِّی تُبْتُ الْآنَ وَ لاالَّذینَ یمُوتُونَ وَ همْ کفَّارٌ أُولئِک أَعْتَدْنا لَهمْ عَذاباً أَلیماً(ترجمہ: ان لوگوں کی توبہ (قبول) نہیں ہے۔ جو (زندگی بھر) برائیاں کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے، تو وہ کہتا ہے، اس وقت میں توبہ کرتا ہوں۔ اور نہ ہی ان کے لیے توبہ ہے۔ جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے۔) (نساء، 18)

 

توبہ ہمیشہ گناہ کے بعد نہیں ہے بلکہ قرآن کریم میں ایک جگہ اعلان ہوتا ہے کہ خداوند متعال پیغمبر اکرم(ص)، مہاجرین اور انصار جنہوں نے خدا کی فرمانبرداری کی ہے کی توبہ کو قبول کرتا ہے۔( توبہ/ ۹/۱۱۷)  یہاں توبہ کی قبولیت کا تذکرہ ہے بغیر اس کے کہ کسی گناہ کا ذکر ہوا ہو، لہذا توبہ کبھی گناہ کے بعد ہے اور کبھی اس سے مراد کسی چیز یا شخص پر خدا کی رحمت اور نگاہ کرم کے ہیں۔

نجات اور ہدایت کے سالک پر ایک اہم نکتہ کی جانب توجہ ضروری ہے؛ کیونکہ خالص اور صحیح توبہ کرنے کی توفیق بہت مشکل چیز ہے اور اس کے شرائط کے ساتھ خالص اور مکمل توبہ مشکل کام ہے اور انسان بہت کم اس میں کامیاب ہوتا ہے، بلکہ گناہوں میں داخل ہونا خصوصا گناہاں کبیرہ اور اس کی ہلاکت بار امور کا ارتکاب باعث ہوتا ہے کہ انسان کو پورے طور پر توبہ کرنے سے غافل کردے۔ اگر انسان کے مزرعہ دل میں گناہوں کا درخت اگ جائے اور بڑا ہوجائے اور اس کی جڑ مضبوط ہوجائے تو اس کے نتائج بہت ہی بھیانک ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کو کلی طور پر توبہ کرنے سے غافل کردیتا ہے اور اگر کبھی کبھی اس کی طرف متوجہ ہوتا بھی ہے تو آج اور کل کی امید میں وقت اور کام دونوں ہی ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور خود سے کہتا ہے کہ آخر عمر اور بوڑھاپے میں مکمل اور صحیح توبہ کرلے گا۔

جبکہ اس بات سے غافل ہے کہ یہ جو کررہا ہے خدا سے مکر کررہا ہے۔ خیال نہ کرو کہ گناہوں کی جڑ مضبوط ہونے کے بعد توبہ کرلوگے یا پھر اس کے شرائط فراہم کرے، لہذا توبہ کی بہار کا وقت ایام جوانی ہی ہیں؛ کیونکہ ان میں گناہ م سے کم قلبی کدورت اور باطنی ظلمت، ناقص اور توبہ کے شرائط آسان اور سہل ہوتے ہیں؛ کیونکہ جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو حرص و ہوس، طمع و لالچ، طولانی آروزئیں، مقام و منصب کی چاہت، مال و منال کی خواہش بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔

رسولخدا (ص) نے فرمایا ہے: "فرزند آدم بوڑھا ہوجاتا ہے لیکن اس کے اندر دو چیزیں (جوان) رہ جاتی ہیں: حرص اور آرزو۔ (خصال ج 1، ص 73)

اس بات سے حیران ہوں کہ انسان کب بوڑھاپے میں ان امور کا قیام کرے گا۔ کیسے معلوم کہ بوڑھاپے آجائے اور ایام جوانی میں گناہ کرتے ہوئے اسے موت نہ آئے اور اس کو مہلت دے؟ بوڑھوں کا کمیاب ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ موت جوانوں سے زیادہ نزدیک ہے؛ لہذا 50/ ہزار آبادی والے کسی شہر میں سارے کے سارے یکبارگی بوڑھے نہیں ہوجائیں گے۔

لہذا عزیزو! دوستو بھائیو! شیطان کے مکر و حیلہ سے ڈرو اور اپنے خدا سے مکر و حیلہ نہ کرو کہ 50/ سال تک ہوس رانی اور شہوت رانی کروں گا اور آخر عمر میں کلمہ استغفار کے ذریعہ توبہ کرلوں گا۔ یہ خام خیالی ہے۔ امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

جو شخص مرنے سے ایک سال قبل توبہ کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ پھر فرمایا: ایک سال زیادہ ہے اگر کوئی ایک ماہ پہلے توبہ کرے تو بھی خدا قبول کرلے گا۔ پھر فرمایا: ایک ماہ بھی زیادہ ہے اگر کوئی ایک ہفتہ پہلے توبہ کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا بلکہ کوئی ایک دن پہلے بلکہ آثار موت دیکھنے سے پہلے توبہ کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا۔ (اصول کافی، ج 2، ص 44، کتاب ایمان و کفر)

ای میل کریں