امام خمینی (رح) کے اخلاقی نظریات پر ایک نظر
امام خمینی (رح) خودسازی، تزکیہ نفس اور اللہ کی جانب سیر اور سلوک کے آغاز کی سب سے پہلی شرط "تفکر" جانتے ہیں۔ جان لو کہ نفس سے جہاد کرنے اور خدا کی جانب سیر کرنے کی پہلی شرط تفکر ہے۔ تفکر کس اس وجہ سے اہمیت ہے کہ اس کی وجہ سے انسان خواب غفلت سے بیدار ہوجاتا ہے۔ اس بیداری کا عرفان میں نام "یقظہ" ہے۔ اور یہ اللہ کی جانب سیر کرنے کا سب سے پہلا مرحلہ شمار ہوتا ہے، یقظہ اور بیداری کا نتیجہ یہ ہے کہ جو انسان خواب غفلت سے بیدار ہوتا ہے وہ خدا کی طرف متوجہ ہوتا اوراس سے توبہ کرتا اور بارگاہ احدیت میں عفو و بخشش کی درخواست اور توبہ کرتا ہے۔ ہم اس بحث میں توبہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
امام خمینی (رح) نے کتاب چالیس حدیث کی 17/ ویں حدیث کو توبہ، اس کے شرائط اور ارکان کے بارے میں گفتگو سے مخصوص کیا ہے اور تفصیل کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے۔ ہم بھی ان شاء اللہ اس کے بعض حصوں کی طرف اشارہ کریں گے۔
معاویہ بن وھب نے کہا: میں امام جعفر صادق (ع) سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: جب کوئی بندہ خالص توبہ کرے تو خدا اسے دوست رکھتا ہے، پھر اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی کرتا ہے۔ پھر میں نے کہا: وہ کس طرح پردہ پوشی کرتا ہے؟ آپ نے کہا: اس کے گناہوں کو لکھنے والے فرشتوں کو فراموشی میں ڈال دیتا ہے کہ جو کچھ انہوں ںے لکھا ہے وہ بھول جائیں اور اس کے اعضاء کی طرف وحی بھیجتا ہے کہ اس کے گناہوں کو چھپاؤ اور زمین کے ٹکڑا کی طرف وحی کرتا ہے کہ تم پر جو کچھ اس نے گناہ کئے ہیں سب کو ڈھانپ لو۔ پھر وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے خلاف گواہی دینے والی کوئی چیز نہ ہوگی۔ (اصول کافی، ج 2، ص 430 کتاب ایمان و کفر، باب توبہ، حدیث 1)
خبردار توبہ ایک اہم اور مشکل منزل ہے اور وہ طبیعت سے روحانیت کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یعنی گناہوں اور نافرمانی کی وجہ نفس پر گرد بیٹھ جانے کے بعد کیونکہ نور فطرت اور روحانیت پردہ میں چلی جاتی ہے اور طبیعت کی ظلمت کا پردہ پڑ جاتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل مختصر طور پر یہ ہے کہ نفس ابتدائے فطرت میں نفس ہر قسم کے کمال، جمال، نور اور تازگی سے خالی ہوتا ہے۔ چنانچہ ان سے مقابلہ کرنے سے بھی خالی ہے۔ گویا مطلق نقوش سے صفحہ خالی ہے یعنی اس میں روحانی کمالات ہیں اور نہ ہی ان کی اضداد کا اس میں گذر ہے بلکہ بالکل سفید ہے لیکن ہر مقام کے حاصل کرنے کا اس میں نور، استعداد اور صلاحیت ودیعت کی گئی ہے اور اس کی فطرت کا ضمیر اس کے ذاتیہ سے ہے اور جب گناہ کرے گا تو اس کی وجہ سے اس کی دل میں کدورت آئے گی اور گناہ جتنے بڑھتے جائیں گے اتنی ہی اس کی کدورت اور ظلمت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ دل بالکل تاریک اور سیاہ ہوجاتا ہے اور نور فطرت بجھ جاتا ہے اور ابدی شقاوت تک پہونچ جاتا ہے اگر ان سارے احتمالات کے درمیان پورے صفحہ دل پر تاریکی چھانے سے پہلے خواب غفلت سے بیدار ہوجائے اور یقظہ کی منزل کے بعد توبہ کی منزل میں قدم رکھ دے تو اس نے اس منزل کے حقوق کو ادا کردیا ہے، ظلمانی حالات اور فطری کدورتوں سے باہر نکلے گا اور اصلی نور فطرت اور ذاتی روحانیت کی طرف پلٹ آئے گا۔ لہذا انسان کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے ورنہ غفلت میں پڑے رہنے سے ظلمت کے دلوں میں پھنستا جائے گا کہ اس کے بعد نکلنا ناممکن ہوجائےگا۔