بعثت رسولؐ امام خمینی (رہ) کی نگاہ میں
اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا منصب رسالت پر فائز ہونا تاریخ بشریت کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے، جیسا کہ خود امام خمینی (رہ) نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے کہ پوری تاریخ انسانیت میں بعثت سے بڑھ کر کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہے، دنیا میں بہت سے واقعات رونما ہوتے ہیں لیکن بعثت انبیائے عظام اور بالخصوص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت سے بڑھ کر کوئی عظیم الشان واقعہ نہیں ملتا اور یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی واقعہ رونما ہوگا کیونکہ عالم وجود میں پیغمبر اکرم صلی الہ علیہ و آلہ و سلم سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے، خداوندمتعال کی ذات اقدس، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات اور آپؐ کی بعثت تاریخ کے اوراق میں قید ہونے والے واقعات اپنی مثال آپ ہیں۔ حضرت رسول اکرمؐ کی بعثت اور اس کی برکتوں کے بارے میں لب گشائی کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، بس ہم اتنا جانتے ہیں کہ جو علوم ہمیں بعثت کی برکت سے حاصل ہوئے ہیں وہ بشریت کی حدود سے خارج ہیں، یہ ایسا معجزہ ہے جسے درک نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم بعثت سے پہلے پیغمبر اکرمؐ کی آمادگی کے بارے گفتگو کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ آلودہ ماحول سے ہمیشہ ہی پریشان کا اظہار کیا کرتے تھے اور ایسے ماحول میں آلودہ لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے تھے، آپؐ اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر خدائی امداد سے مستفید ہوتے لیکن جب آپؐ نے سینتیس سال کی زندگی بسر کر لی تو آپؐ کو محسوس ہونے لگا کہ غیب سے مدد کا سلسلہ مزید بڑھ رہا ہے اور جو کچھ اپنے خاندان والوں یا اہل کتاب کے علماء وغیرہ سے سن رکھا تھا وہ رونما ہو رہا ہے، آپؐ مخصوص نور کا مشاہدہ کیا کرتے اور بہت سے مواقع پر آپؐ نے غیب سے آوازیں بھی سنیں لیکن آپؐ اس آواز کے مالک کو دیکھ نہیں پاتے تھے خواب میں آواز سنتے کہ کوئی آپؐ کو پیغمبر کہہ کر پکار رہا ہے، ایک مرتبہ مکہ کے اطراف میں ایک بیابان میں کسی نے آپؐ کو رسول اللہ کہہ کر پکارا اور آپؐ نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں، خداوندمتعال نے مجھے بھیجا ہے تا کہ میں آپؐ کو نبوت پر فائز ہونے کی خوشخبری دے سکوں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اس مسئلہ سے اپنی زوجہ حضرت خدیجہ (س) کو مطلع کیا تو انہوں نے نہایت خوشحالی سے کہا مجھے امید ہے کہ ایسا ہی ہو۔ آپؐ پوری انسانیت کے لئے نمونہ عمل تھے، قرآن کریم نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے نیز تاریخ نگاروں نے بھی اپنی کاوشوں کے مطابق اس کی تصویر کشی ہے، قرآن کریم واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہیں اور جو شخص بھی دنیا و آخرت کی سعادت کا خواہاں ہے اسے آپؐ کی سیرت کو اپنا نصب العین قرار دینا چاہئے۔
اسلام پہلے دن سے ایک صاف و شفاف چشمہ کی طرح ظاہر ہوا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ پھیلتا گیا اور آخر کار ایک سمندر میں تبدیل ہو گیا۔ توحید کا نعرہ مکہ کی تاریک فضا میں گھونجا اور آپؐ کو حکم ہوا کہ اپنی عالمی رسالت کا آغاز جزیرۂ عرب سے کریں۔ آپؐ نے فرمایا: بے شک میں خدا کی طرف سے تمہارے اور تمام لوگوں کے لئے بھیجا گیا ہوں اسی طرح قرآن کی بعض آیات اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں مثال کے طور پر سورۂ انبیاء، انعام اور اعراف کے بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی دعوت روز اول سے ہی پوری انسانیت کے لئے تھی۔
اخلاقیات اور اخلاقی تعلیمات بالخصوص انبیائے کرام کا اخلاق انسانی سعادت کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔ اخلاق پوری انسانیت کی انفرادی و اجتماعی ضروری ہے لیکن ان لوگوں کے لئے زیادہ لازمی ہے جو معاشرہ کی قیادت کرتے ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق عالی نے اسلام کو پہلے عربی معاشرہ اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیلایا اور اس کے نتیجہ میں ایسے افراد کی تربیت ہوئی جو ہمیشہ کے لئے اخلاقی نمونہ بن گئے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق اس قدر بلند و برتر ہے کہ خداوندمتعال نے اسے "خلق عظیم" کہہ کر پکارا ہے۔ رسول خداؐ کے پاس اسلام کی تبلیغ میں دو اہم طاقتیں موجود تھیں ایک آپؐ کے چاہنے والے جنہوں نے حقیقت اسلام کو پایا اور دوسری طاقت آپؐ کے پیغامات تھے جو پوری دنیا تک پہنچ گئے۔ پیغمبر اسلامؐ کی روح مبارک کانپ رہی جاتی ہے جب موجودہ دور میں نام نہاد مسلمانوں کی حالت کا مشاہدہ کرتی ہے کہ جس اسلام کے لئے آپؐ نے دن و رات کوشش کی اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے مسلمان کیا کر رہے ہیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کو عالمی بنانے کے لئے ہر طرح کی کوشش کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری زمین خداوندمتعال کی تجلی گاہ ہے اور اس کی مختلف صورتیں ہیں، ۲۷ رجب المرجب ان ہی بے انتہا جلوؤں کا ایک جلوہ ہے جس کی کرنیں ہر جگہ پر نظر آتی ہیں، اس دن پیغمبر اسلامؐ منصب نبوت پر فائز ہوئے اور آپؐ کا نورانی دل خداوندمتعال کے نام، کلام اور دین اسلام کی تجلی گاہ قرار پایا۔ آپؐ کی بعثت نے پوری انسانیت کو دین اسلام کی عطوفت و مہربانی سے آگاہ کیا اور انسانیت کی مسخ شدہ زندگی کو دوبارہ حیات ملی، آسمانی پیغام دوبارہ اہل زمین کے سامنے پڑھا گیا، تعصب و تفرقہ اور جہل و جہالت کا خاتمہ ہوا، آپؐ کی بعثت نے شرک و بت پرستی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا، بعثت کا دن نہایت خوشی کا دن اور آپؐ کا کلام سرچشمہ نور ہے۔ اس بابرکت دن نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن ان تمام خوبیوں میں ہم اگر اس دن صرف ایک خوبی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہی ہماری زندگی کے لئے ایک اہم درس بن سکتا ہے، اس دن ہمیں آپؐ کی بقیہ صفات کے ساتھ ساتھ آپؐ کے حسنِ خلق کو یاد کرنا چاہئے اور آپؐ کے اخلاق کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانا چاہئے جو پوری انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہے تا کہ اس طریقہ سے ہم اس دن کو اپنے لئے بابرکت دن بنا سکیں کیونکہ برکت پیغمبر اسلامؐ کے نام اور ان کی یاد میں پوشیدہ ہے اور زندگی بھی آپؐ کی محبت اور عشق میں مبارک قرار پاتی ہے۔
قرآن کریم رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرواتے ہوئے آپؐ کو خداوندمتعال کے مظہر کے عنوان سے پہچنواتا ہے یعنی آپؐ کا پورا وجود اس کی قربت کے نتیجہ میں نور ربوبی کی عکاسی کرتا ہے لہذا آپؐ پر ظاہری نگاہ بھی حقیقت میں خدا کے نور پر نگاہ، آپؐ کی محبت، خدا کی محبت اور آپؐ کی پیروی خدا کی پیروی، آپؐ کی بیعت خدا کے ساتھ بیعت اور آپؐ کے ساتھ رابطہ حقیقت میں خدا کے ساتھ رابطہ ہے اور یہ مقام صرف آپؐ اور آپ کے اہل بیتؑ کے وجود مقدس میں جلوہ نما ہوا ہے، خود قرآن مجید نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے "قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی یحببکم اللہ" اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرا اتباع کرو تو خدا تم سے محبت کرنے لگے گا۔