حضرت زہراء (س) کی اجتماعی اور سیاسی زندگی
حضرت زہراء (س) پیغمبر عظیم الشان والا مقام حضرت محمد مصطفی (ص) کی اکلوتی بیٹی ہیں۔ آپ کی مادر گرامی جناب خدیجہ بنت خویلد (س) ہیں۔ آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہے لیکن علمائے امامیہ کے درمیان مشہور یہ ہے کہ آنحضرت (س) جمہ کے دن 20/ جمادی الثانیہ سن 5/ بعثت کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔
حضرت زہراء (س) کے بے شمار اسماء ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: فاطمہ زہراء (س) کے خدا کے نزدیک 9/ نام ہیں: فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، راضیہ، مرضیہ، محدثہ، اور زہرا۔ حضرت (س) کا ہر ایک نام انسانی اعلی صفات اور خصوصیات کا جلوہ ہے۔
روایات میں چار عورتوں کو جنت کی بہترین عورتوں کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
1. خدیجہ بنت خویلد (س)
2. فاطمہ بنت محمد (س)
3. مریم بنت عمران (س)
4. فرعون کی زوجہ آسیہ بنت مزاحم (س)
حضرت زہراء (س) اپنے والد بزرگوار کی حیات طیبہ میں بھی اسلام اور قرآن کی حقانیت کے لئے قربانی دی اور آپ (ص) کی رحلت کے بعد جب لوگوں نے خلافت جیسے الہی منصب اور فدک کو غصب کرلیا گیا تو آپ اس حق کے دفاع میں بنی ہاشم کی عورتوں کے ہمراہ مسجد گئیں اور مسلمانوں کے مجمع میں پردہ کے پیچھے سے آپ نے ایسا زبردست خطبہ دیا کہ مرکز خلافت ہل گیا۔ آپ نے رسولخدا (ص) کے بعد ہونے والی بدعتوں، ظلم و جور، حق کشی، رسولخدا (ص) کی وصیت کو فراموش کرنے اور دور جاہلیت کی رسم و رواج کے دوبارہ زندہ ہونے پر اعتراض اور تنقید کی اور آپ نے کہا کہ حق کے دفاع سے انکار قرآن و پیغمبر (ص) کی وصیتوں کو فراموش کرنے کی صرف اور صرف وجہ دنیا دوستی، عیش و عشرت کی زندگی، لذت طلبی اور ہوس پرستی ہے۔ اور جن لوگوں نے اتنی جلدی وحی و دین کے نتائج اور پیغمبر (ص) کی خدمتوں اور زحمتوں کو بھلادیا تھا اسے یاد دلایا اور مذمت کیا۔
آپ کا دربار خلافت میں یہ خطبہ اس بات کی دلیل اور علامت ہے کہ آپ اجتماعی معاہدہ کی پابند اور دینی بنیادوں کے دفاعی میدان میں حاضر تھیں اور بدعتوں اور غفلتوں سے مقابلہ کررہی تھیں۔
حضرت زہراء (س) نے حق اور علی کی ولایت کے اثبات اور امت اسلامی کی رہبری میں انحراف اور کجروی سے مقابلہ، اپنا فریضہ جانا۔ کبھی کبھی راتوں کو حضرت علی(ع) کے ہمراہ مہاجرین اور انصار کے گھروں پر جائیں اور ولایت کی حمایت کرنے کی تاکید کرتیں، اپنے والد بزرگوار کے وصیتوں اور تاکیدوں کو یاد دلاتی تھیں اور ان لوگوں کو اپنے شوہر کی خلافت کے مسئلہ میں حق کی دفاع اور اپنے حق کی حمایت کا مطالبہ کرتی تھیں۔
حضرت زہراء (س) کی سیاسی روش بہت ہی واضح اور روشن کرنے والی رہی ہے اور آپ (س) نے اس طرح مدبرانہ انداز میں عمل کیا کہ ان کے بعد بھی راہ روشن رہے اور اسی بنیاد پر اپنی مختصر زندگی کے اواخر میں اور بستر شہادت پراپنے مظلوم شوہر علی (ع) کو وصیت کی کہ میرے جنازہ کو رات کی تاریکی میں دفن کریں تا کہ جن لوگوں نے آپ پر ظلم ڈھائے ہیں اور ستم کے پہاڑ توڑے ہیں آپ کے دفن اور تشییع جنازہ میں شریک نہ ہوسکیں اور اس شرکت سے اپنا سیاسی فائدہ نہ اٹھاسکیں اور اپنے سیاہ کارناموں کی توجیہہ اور صفائی نہ دے سکیں۔ یہ سب حضرت (س) کی درایت اور مستقبل پر گہری نظر کی مثالیں ہیں۔
آج بھی آپ (س) کی قبر کا پوشیدہ ہونا اس ظلم و جور کی علامت اور حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ آپ (س) اور آپ کے خاندان کے ساتھ ہوا ہے۔ آپ نے اپنے اس حکیمانہ اقدام سے رہتی دنیا تک کی عورتوں کو پیغام دے دیا کہ الہی اقدار کی ترویج اور نشر و اشاعت کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ رہیں اور اگر بات اس سے آگے بڑھ جائے تو مردوں کی پرواہ کئے بغیر حق کا دفاع کریں اور باطل کی نابودی اور بیخ کنی کا اعلی نمونہ بن جائیں۔
امام خمینی (رح) فرماتے تھے: وہ تمام ابعاد و جوانب جو ایک خاتون اور ایک انسان کے لئے قابل تصور ہے وہ سارے کے سارے حضرت فاطمہ زہراء (س) میں جلوہ گر تھے۔ حضرت کوئی معمولی خاتون نہیں تھیں۔ ایک عالمہ، روحانی اور ملکوتی خاتوں تھیں اور مکمل طور پر ایک انسان تھیں۔ آپ ایک ملکوتی موجود ہیں جو انسان کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں بلکہ ایک عورت کی صورت الہی اور جبروتی موجود ہیں۔ ایسی خاتون جس میں تمام انبیاء کے صفات جمع ہیں۔ اگر مرد ہوتیں تو نبی ہوتیں اور رسولخدا (ص) کی جگہ پر ہوتیں ہم آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
آخر کار اپنے بابا کی امت کے ظلم و ستم کی تاب نہ لاکر 3/ جمادی الثانیہ سن 11/ ھ ق کو 18/ سال کی عمر میں شہید ہوگئیں۔ خداوند عالم حضرت زہراء (س) کے قاتلوں پر لعنت کرے اور انهیں بدترین عذاب میں مبتلا کرے۔ آمین۔