ایرانی اسٹریٹیجک پاور سے عنقریب پردہ اٹھا دیا جائیگا، عرب میڈیا
اسلام ٹائمز۔ عرب نیوز چینل المیادین کے اینکرپرسن اور مجلے رأی الیوم کے معروف لکھاری کمال خلف نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کیطرف سے قطری امیر شیخ تمیم آل ثانی کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ وہ تہران کیلئے ایک انتہائی اہم پیغام لیکر آئے تھے گو کہ بعض فریق یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایرانی سپریم لیڈر کی طرف سے امیر قطر کے اس استقبال کی وجہ شیخ تمیم آل ثانی کے سال 2013ء میں حکومت تک پہنچنے کے بعد تہران کا انکا پہلا دورہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ کئی ایک تجزیہ نگاروں کی طرف سے یہ بھی لکھا جا رہا ہے کہ چونکہ کچھ دن قبل ایران کیطرف سے اس حقیقت پر سے بھی پردہ اٹھایا گیا تھا کہ سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنیکی امریکی کارروائی میں قطر میں موجود امریکی فوجی اڈہ بھی ملوث تھا لہذا اب قطری امیر خود اس مسئلے کی وضاحت کیلئے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے سامنے حاضر ہوئے ہیں تاہم لگتا ایسا ہے کہ یہ تجزیہ حقیقت سے دور ہے کیونکہ قطر کے بارے میں ملنے والی رپورٹس باوثوق نہیں ہیں اور اگر ایسا ہو تب بھی ایران اس وجہ سے قطر کو نشانہ نہیں بنائے گا (کیونکہ وہ خطے میں مسلم اتحاد کا سب سے بڑا داعی ہے)۔
معروف عرب اینکرپرسن کمال خلف لکھتے ہیں کہ ظاہری طور پر قطری امیر شیخ تمیم آل ثانی کے ایران کے دورے کی وجہ امریکہ اور ایران کے درمیان خطے میں موجود تناؤ ہے جبکہ وہ اس حوالے سے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ انکا لکھنا ہے کہ قطری امیر کی ایرانی سپریم لیڈر کیساتھ ملاقات کا ظاہری طور پر ایک ہی مطلب ہے اور وہ یہ کہ قطری امیر کوئی خاص پیغام لیکر آئے ہیں جسکے متن پر وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے براہ راست جواب سننا چاہتے ہیں۔ کمال خلف لکھتے ہیں کہ ایران کا اس پیغام پر کیا جواب ہے، یہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اور خطے میں موجود تناؤ کی سطح کے کم یا زیادہ ہونے پر معلوم ہو گا اور خصوصا تب جب ایران اور اس کی حلیف قوتیں خطے سے امریکہ کو نکال باہر کرنیکے لئے عملی اقدامات اٹھانا شروع کر دیں گی اور اپنی اسٹریٹیجک طاقت سے پردہ اٹھائیں گی جبکہ یہ مرحلہ عنقریب شروع ہونے ہی والا ہے۔ انکا لکھنا ہے کہ ایرانی اسٹریٹیجک پاور کی نمائش کا صحیح وقت جاری سال کا دوسرا نصف حصہ ہے جب امریکہ میں انتخاباتی کمپین کا آغاز ہو چکا ہو گا۔ کمال خلف لکھتے ہیں کہ قطری امیر کے دورۂ تہران کے موقع پر شامی اعلی سطحی وفد کی تہران میں موجودگی بھی بہت اہم ہے کیونکہ شامی وزیرخارجہ ولید المعلم تہران آنے سے قبل ترک صدر طیب اردوغان کیساتھ بھی ملاقات کر چکے تھے اور دوسری طرف روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی قبل ازیں شام کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ یہ تمامتر آمدورفت خطے میں کسی نئی صورتحال کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔