مرجعیت کا پیغام اور عراقی وزیراعظم کا استعفیٰ
عراق کے وزیراعظم عادل المہدی نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرجعیت کا پیغام غور سے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اپنا استعفیٰ پارلیمنٹ کے حوالے کر دوں، البتہ میں اس سے پہلے بھی اعلانیہ اپنے استعفیٰ کے بارے میں موقف کا اعلان کرچکا تھا۔ گذشہ روز عراق کے مرجعِ عالی قدر حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے عراق میں جاری مظاہروں اور جلاؤ گھیراؤ کے بعد اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ "ان مشکل حالات کے پیش نظر کہ جن سے ملک گزر رہا ہے، یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ متعلقہ ادارے پچھلے دو ماہ میں پیش آنے والے واقعات میں کوئی ایسا راہ حل تلاش کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ جس سے لوگوں کے حقوق اور خون کی حفاظت ہوسکے، پس موجودہ پارلیمنٹ جس سے حکومت وجود میں آئی ہے، کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے اختیارات پر نظرثانی کرے اور عراق کی مصلحت اور عراقیوں کے خون کی حفاظت کی خاطر اقدامات انجام دے۔"
آیت اللہ سیستانی کے اس پیغام میں انتخابات کے طریقہ کار اور حتیٰ آئین میں اختلافات کیطرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ عراق کی مرجعیت نے ایک بار پھر سامنے آکر ملکی سیاست کی اصلاح کی آواز اٹھائی ہے، البتہ اس کے ساتھ واضح طور پر یہ بھی کہا ہے کہ مرجعیت صرف رہنمائی اور ہدایت کا فریضہ انجام دے گی، عوام کو اپنی مرضی سے اپنے حال اور مستقبل کی بہتری کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیئے۔ مرجعیت کے اعلامیہ کے بعد وزیراعظم عادل عبدالمہدی کا مرجعیت کے حکم پر لبیک کہنا خوش آئند ہے، لیکن کیا عراق کی موجودہ صورتحال کا واحد حل عادل عبدالمہدی کا استعفیٰ ہے۔؟ عراق کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں اندرونی سے زیادہ بیرونی ہیں۔
اندرونی چیلنجوں میں انتخابات کے قانون میں اصلاح اور الیکشن کمیشن کے اختیارات بھی شامل ہیں، جس کے بارے میں مرجعیت کے اعلامیہ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ عراق کی سیاسی جماعتوں کو ایک صفحے پر آکر تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر آئندہ کے بارے میں فیصلہ سازی اور قانون سازی کرنا ہوگی، کیونکہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی منحوس مثلث عراق میں داعش کی ناکامی کے بعد جن سازشوں کو عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے، وہ عراق سمیت پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ اور حکام کو مرجعیت کی ہدایت و رہنمائی میں ایسے فیصلے کرنے ہونگے، جن سے جمہوریت کو تقویت مل سکے۔