قانون اساسی

امام خمینی (رح) کی نظر میں اسلامیہ جمہوریہ کا سب سے بڑا نتیجہ

حکومت چلانے کے طریقہ کار اور اس کے حدود اختیارات کو معین کرنے اور ہر طبقہ، جماعت، فرد اور اداروں کے چلانے اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط معین کرنا ضروری ہوتا ہے

امام خمینی (رح) کی نظر میں اسلامیہ جمہوریہ کا سب سے بڑا نتیجہ

جمہوری اسلامی حکومت کے قیام کے بعد حکومت کے تمام شعبوں میں اسلامی کی حاکمیت کی غرض سے مناسب عملی راہوں کے فراہم ہونے کی بنا پر ایک ایسے قانون اساسی کی ضرورت تھی جو معاشرہ کی ثقافتی، سماجی، سیاسی اور معاشی بنیادوں کو بیان کرے اور اسلامی اصول کے مطابق ہو۔ اسی مقصد کے پیش نظر پورے ملک سے 75/ افراد پر مشتمل مجلس خبرگان بنی۔ یہ مجلس بہت سارے اسلام شناس، فقہاء اور شہید بہشتی کی روز و شب کی مسلسل کوششوں اور حضرت امام خمینی (رح) کی تاکید کہ قانون اساسی سو فیصد اسلامی ہو، کی شمولیت سے قانون اساسی کی تدوین کرسکی۔

اس مجلس کی کارکردگی کے مادہ 12/ فصلوں اور  175/ اصل پر تنظیم کی گئی اور 15/ نومبر 1979ء کو نمائندوں کی منظوری کی حاصل ہوئی۔ آخر کار 3/ دسمبر کو مکمل ہوئی اور 99 فیصد سے زیادہ ایرانی عوام نے اس کے حق میں اپنی ووٹ دے کر منظوری دے دی۔ مرحوم امام خمینی (رح) اجراء کرنے کی غرض سے قانون اساسی پر حاشیہ لگایا اور فرمایا: قانون اساسی (آئین) ایک عظیم ثمرہ بلکہ اسلامیہ جمہوریہ کا سب سے بڑا نتیجہ ہے۔

یہ حکومت، ولایت فقیہہ کی اصل پر استوار ہے۔ امام خمینی (رح) نے یہ تجویز اس وقت دی تھی جب شاہی ظالم حکومت نے معاشرہ میں اضطراب اور گھٹن کا ماحول بنا رکھا تھا۔ اس تجویز نے لوگوں کے اندر معین اور منسجم مقصد ایجاد کردیا اور اسلامی کے مکتبی مقابلہ کی راہ کھولی اور ایسی راہ پر یہ تحریک آگے بڑھی اور ایک وقت وہ ایا کہ شاہی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھدیں۔ نتیجتا حکومت نے دباؤ اور گھٹن کے ماحول کو کم کیا اور سیاسی فضا قائم ہوگئی۔ حکومت کا خیال تھا کہ اس طریقہ کار سے اپنی حکومت کو گرنے سے بچائے گی لیکن امام کی رہبری میں باخبر اور اپنے عزم و ارادہ میں پختہ قوم متحد ہو کر کامیابی کی طرف بڑھتی رہی اور پورے ملک میں اتحاد و اتفاق کا پرچم لہرا کر شاہی ظالم و جابر حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تیار ہوگئی۔

حکومت چلانے کے طریقہ کار اور اس کے حدود اختیارات کو معین کرنے اور ہر طبقہ، جماعت، فرد اور اداروں کے چلانے اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط معین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لئے امام خمینی (رح) کی رہبری اور رہنمائی میں علماء اعلام اور ایرانی دانشوروں نے قانون اساسی بنانے کی ٹھانی اور اس اہم امر کے لئے اپنا شب و روز ایک کردیا، مسلسل کوششوں سے ان بزرگوں کی زحمتیں رنگ لائیں اور فرد و معاشرہ کے حقوق معین ہوئے، سب کے لئے اصول حیات اور ضابطہ زندگی تیار ہوئے۔ پورے ملک میں ہر شعبہ کے لئے قانون منظور ہوا۔ 3/ دسمبر کا دن ایران کی تاریخ میں ایک سنہرا بات کہلاتا ہے۔ ہر ایک کو اس کا جائز حق حاصل ہوا۔ قانون اساسی (آئین) یعنی انسانیت کی نجات کے طریقہ کار اور اسباب کی فراہمی، ظالمانہ قانون سے نجات، درندگی کے ماحول سے چھٹکارا۔ اسلامی اور انسانی اصول وضوابط پر عمل پیرا کرنے کی کوشش ہے۔

خداوند عالم ہم سب کو قانون کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور اس راہ کے تمام شہیدوں کے درجات کو بلند کرے۔ آمین۔

ای میل کریں