امام خمینی اور دوسرے سیاسی راہنماوں میں فرق
امام خمینی (رہ) اور دوسرے سیاسی و انقلابی رہبروں و قائدوں میں جو نمایاں فرق پایا جاتا ہے وہ حقیقت میں اسلام و ایمان کی نسبت ان کی شناخت پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اسلام کو صحیح معنی میں سمجھا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مجسمہ اسلام تھے اور دین اسلام میں استقلال، آزادی ان کے وجود میں جلوہ نما تھی ان کے لئے جو چیز اصل تھی وہ ہرگز دوسروں کی مخالفت نہیں تھی بلکہ ان کے نزدیک اصل چیز اسلام سے وفادری اور اس کے اصولوں اور اقدار اور آرزوؤں کے مطابق عمل پیرا ہونا تھا اور اگر اس طرح کی وفاداری میں ان کے نظریات دوسروں کے مطابق ہوتے تھے تو اس میں کسی طرح کی ممانعت نہیں جیسا کہ اگر ان کا کوئی نظریہ دوسروں کے مخالف ہوتا تو ہرگز ان کے دل میں رعب و وحشت طاری نہیں ہوتی تھی۔ اسلام کے بارے میں ان کا عالمانہ اور عاقلانہ یقین اس چیز کا سبب بنا کہ وہ دنیا کے سیاسی و انقلابی رہبروں و قائدوں کے برخلاف مغربی دنیا کی سیاسی روشوں کے مقلد نہیں تھے۔ وہ خود پر بھروسہ رکھتے تھے کیونکہ وہ خدا پر بھروسہ رکھتے تھے، اپنے نفس پر اعتماد کا منشأ بھی اپنے پروردگار پر اعتماد تھا وہ خود کہتے ہیں: اے دنیا کے مسلمانو! اسلام کی حقیقت پر ایمان رکھتے ہوئے قیام کرو اور پرچم توحید اور اسلامی تعلیمات کے سایہ میں جمع ہو جاؤ اور اپنے ممالک سے خیانتکاروں کو باہر نکال دو جو ہمارے ممالک میں ذخائر جمع کرنے آئے ہیں، نفسانی خواہشات اور تفرقہ و جدائی سے پرہیز کرو کہ تمہارے پاس سب کچھ موجود ہے اسلامی ثقافت پر تکیہ کرتے ہوئے مغرب اور مغربی یلغار کا مقابلہ کرو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرو اور اپنی حیثیت کو پاؤ۔ ۔ ۔ آج تمام اقوام کی تحریک کا زمانہ ہے اے مسلمانو! پائداری کا ثبوت دیتے ہوئے انسانیت کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دو اگر خداوندمتعال کی جانب رخ کرو گے اور اسلامی تعلیمات سے فیضیاب ہو گے تو خدا کا عظیم الشان لشکر تم لوگوں کے ساتھ ہے۔ (صحیفه نور، جلد 13، ص 83، بیت الحرام کے زائروں کو دئے گئے پیغام کا ایک حصہ )۔
ایک اور مقام پر امام (رہ) فرماتے ہیں: کوئی بھی قوم اس وقت تک آزادی حاصل نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے آپ کو نہ پا لے اور جب تک قومیں اپنے آپ کو نہیں پائیں گی تو دوسرے ان پر حکومت کرتے رہیں گے، نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ملک اسلامی حقوق، اسلامی قاضیوں اور اسلامی ثقافت کے باوجود ثقافت و حقوق میں مغربی دنیا کو اپنا نمونہ عمل بنا رہا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مغربی دنیا کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اور یہی چیز ہماری قوم اور دوسری اقوام کی بد بختیوں کا سبب ہے اور اس کے خاتمہ کے لئے کافی وقت درکار ہے مشرقی دنیا اپنی ثقافت کھو چکی ہے اور اگر تمہیں آزادی چاہئے اور مستقل طور پر زندگی بسر کرنا چاہتے ہو تو استقامت اور پائداری کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمارے نوجوانوں، دانشوروں اور یونیورسٹیز کے اساتذہ کو مغربی دنیا سے کسی قسم کے خطرہ کو محسوس نہیں کرنا چاہئے انہیں ارادہ کرنا چاہئے اور مغرب سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے۔ ( صحیفہ نور، جلد 11، ص 186، 13/10/58 ۱۳ میں ایک گروہ کے ساتھ گفتگو )۔
اپنے نفس، اپنی لیاقتوں اور قومی توانائیوں پر بھروسہ سبب بنا کہ امام خمینی (رہ) نے دشمنوں کی دھمکیوں پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنی قوم سے خطاب میں فرمایا: جب تک وابستہ رہو گے ہرگز آزادی و استقلال حاصل نہیں کر پاؤ گے، استقلال و آزادی میں کوئی خطرہ نہیں ہم جب تک آزاد نہیں تھے تمام قسم کی مشکلات میں گرفتار تھے اور اب آزادی کے ساتھ مستقل بھی ہیں۔ ( صحیفۂ نور، جلد 9، ص 239 )۔
امام خمینی (رہ) ہمیشہ نئے قدم اٹھاتے تھے مثال کے طور پر ہم ان کی جانب سے انجام دئے گئے دو نمونوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جن میں ایک گورباچف کو لکھا گیا خط اور دوسرا سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ تھا اور سب سے تعجب انگیز چیز یہ ہے کہ ان تمام استثنائی صفات کے پائے جانے کے با وجود آپ (رہ) تمام قسم کے افراد بالخصوص نوجوانوں سے گہرا رابطہ رکھتے تھے اس سلسلہ میں بھی مھدی بازرگان کی گفتگو غور طلب ہے: مجھے تعجب ہوتا کہ ایک ستر اسّی سالہ انسان کا نوجوانوں سے اتنا گہرا رابطہ ہے جتنا مجھ جیسے افراد کا نہیں جنہوں نے ساری زندگی یونیورسٹیز میں بسر کی اور وہاں ہی پلا اور بڑھا ہوں ہمیشہ نوجوانوں میں رہا ہوں اور انقلاب و تحریک میں، میں نے رشد و نمو پایا ہے، ان کے اور نوجوانوں کے درمیان ایک قابل غور خصوصیت پائی جاتی ہے جو انقلاب پر مبنی ہے میں اپنے اور انقلاب میں موجودہ افراد یعنی نوجوانوں کے درمیان اجنبیت محسوس کرتا ہوں چاہے وہ یونیورسٹیز کے جوان ہوں یا سپاہ کے، لیکن امام خمینی (رہ) اور ان کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ ( حامد الگار کی مھندس مھدی بازرگان کے ساتھ گفتگو، ص۱۲ و ۱۳)۔
امام خمینی (رہ) اچھے طریقے سے جانتے تھے کہ مغربی دنیا پر ہرگز بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اس تحریک میں اگر مغربی دنیا کی مانی جائے تو یقیناً ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا اسی وجہ سے انہوں نے جدید قوانین و قواعد ایجاد کئے۔ موجودہ دور میں ان کا ہمارے لئے یہ پیغام ہے کہ ان کی جانب سے برپا کئے جانے والے انقلاب کو مغربی دنیا کے معیاروں پر نہیں پرکھا جا سکتا اور اس کی اہمیت و قیمت مغربی میزانوں پر نہیں تولی جا سکتی امام خمینی (رہ) نے ہمیں وہ چیز یاد دلائی جو تمام انسان بھول چکے تھے یقیناً وہ دوسروں کی طرح نہیں، ان کا انقلاب بھی دوسروں کے انقلاب کی مانند نہیں تھا البتہ قابل غور بات ہے کہ ان کے استقلال اور آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ انہوں نے بغاوت و سرکشی کی ہو کیونکہ دوسروں سے ہٹ کر جدید روشیں اور طریقے اپنائے، اب ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کی راستہ کو کبھی نہ بھولیں اور ان کے قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہوں انہوں نے ہمیں خداوندمتعال سے آشنا کروایا تا کہ ہم اپنے حقیقی خدا کو بہتر انداز میں پہچان لیں المختصر یہ کہ وہ آئے تا کہ اس قرآنی پیغام کو ہمارے کانوں تک پہنچائیں: ولا تکونوا کالذین نسوا الله فانسیهم انفسهم۔ ترجمہ: اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلادیا تو خدا نے خود ان کے نفوس کو بھی بھلا دیا۔