احتجاج

ایران میں پر تشدد احتجاج کے پسِ پردہ محرکات

ایرانی حکومت نے مظاہرین کو فوری پہ گرفتار نہیں کیا، بلکہ احتجاج کی آڑ میں چھپے مہروں کی شناخت کے لیے ڈھیل دی ہے

ایران میں پر تشدد احتجاج کے پسِ پردہ محرکات

تحریر: توقیر کھرل

بدقسمتی سے دو ماہ سے تمام اسلامی ممالک  ماسوائے ایران محض اتفاق سے یا سازش سے احتجاجات کی زد میں تھے۔ عراق کے بعد یہ لہر ایران میں بھی پہنچ چکی ہے۔ جیسا کہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق گزشتہ چار دن سے ایران کے متعدد شہروں میں پُر تشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ جانی و مالی نقصان بھی ہوا اور انٹرنیٹ بھی بند ہوچکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کئی درجن مظاہرین کی شناخت کرلی گئی ہے اور انہیں گرفتار بھی کیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مظاہرین کا مطالبہ کیا ہے اور یہ کون ہیں؟۔ میں اسے کوئی عالمی سازش قرار نہیں دینے والا، بلکہ حقائق کی بنیاد پہ کچھ بنیادی نکات پیش کرتا ہوں۔

ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں پٹرول کو ہر ضرورت مند کو فراہم کرنے کے لیے کچھ نرخ مقرر کئے تھے، جس کو موجودہ صدر نے کچھ تبدیلیوں کے ساتھ مزید مہنگا کردیا۔ مہنگا کرنے کی وجہ ڈالر مہنگا ہونے سے معیشیت پر پڑنے والا اضافہ قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ پٹرول کی قیمت امریکہ میں پٹرول کی قیمت سے پانچ گنا کم ہے، لیکن پٹرول کی قیمت میں اضافہ یعنی مہنگائی میں اضافہ ہونا تصور کیا جاتا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد ہمیشہ کی طرح موقع پرست مظاہرین یا "منافقین" جو کبھی حجاب تو کبھی آزادی کے نام پہ احتجاج کرتے ہیں، اس احتجاج کو پرتشدد رنگ دے رہے ہیں۔

ایرانی حکومت نے مظاہرین کو فوری پہ گرفتار نہیں کیا، بلکہ احتجاج کی آڑ میں چھپے مہروں کی شناخت کے لیے ڈھیل دی ہے، تین دن میں مظاہرین کی قوت کو ہائی جیک کرنے والے گروہوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اور آئندہ ایک دوروز میں صورتحال پہ قابو پالیا جائے گا۔ اِن مظاہروں کی ایک بڑی وجہ الیکشن بھی قرار دیا جارہا ہے، صدر روحانی کے حامیوں کی بڑی تعداد اس کے خلاف ہوچکی ہے، اس لیے حکومت کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق جیسا کہ گزشتہ کئی ماہ سے کئی ممالک میں احتجاج ہورہے تھے، تو انہوں نے ویسا ہی ماحول ایران میں بنانے کے لیے اپنا حصہ بھی شامل کیا ہے۔ اگرچہ پٹرول مہنگا ہوا ہے اور عوام نے احتجاج کا حق استعمال کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ سازشی عناصر نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی مزموم کوشش تو کی ہے، لیکن وہ اس میں زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ مظاہرے پُرتشدد ہوں یا پُر امن ایران میں عراق جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی اور 40 سال سے سازشوں اور عالمی سامراج سے نبر آزما ایران اس امتحان میں بھی کامیاب ہوگا۔

ای میل کریں