حسن اختتام
اٹھ اور مے سے بھر دے ساقیا ہمارے جام کو
جو دل سے دور پھینک دے ہوائے ننگ و نام کو
وہ مے انڈیل جام میں روح کو فنا کرے
نکال دے وجود سے فریب و مکر و دام کو
خودی سے جو رہا کرے، زمام دل کو تھام لے
گرا دے نظروں سے خیال منصب و مقام کو
وہ مے جو بزم میکشان اجنبی کے درمیاں
کچل دے جذبہ رکوع و سجدہ و قیام کو
حریم قدس گلرخاں سے رہنا دور ہی کہ میں
جدھر سے آؤں ، کوئی گل سنبھال لے لجام کو
میں جارہا ہوں بزم بیخودان بے خبر میں اب
نکال آؤں ذہن سے ہر ایک فکر خام کو
تو قاصد سبک روان بحر موت، پیش کر
امیر بحر پر ہماری مدحت و سلام کو
یہ نقش تہ بہ تہ عدم کیا ہے ختم جام پر
کہ دیکھے پیر دیر میرے حسن ختام کو