علامہ اقبال

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی بے چین روح

علامہ اقبال کے ان اشعار کو پڑھ کر اور ان پر غور و فکر کر کے کیا انسان اس نتیجے پر نہیں پہنچتا کہ اقبال نے جن خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی بے چین روح

اسلام ٹائمز- 9/ نومبر حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا یوم پیدائش ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری نے جہاں برصغیر کے مسلمانوں اور حریت پسندوں کو ستاروں سے آگے ایک نئی دنیا کی طرف رہنمائی کی، وہاں اپنے دور کے مسلمانوں میں پائی جانے والی خرابیوں، خرافات، خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کو بھی برملا کیا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کو اپنے زریں اور سنہری ماضی کی یاد دلا کر حال کی اصلاح کا پیغام دیا گیا ہے، مسلمانوں کی سب سے بڑی مشکل "پدرم سلطان بود" رہی ہے، وہ ماضی میں جینا پسند کرتے ہیں، لیکن حال میں سر اٹھا کر زندہ رہنے کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ علامہ اقبال نے ماضی کے جھروکوں میں امت مسلمہ کو مغربی تہذیب، استکبار اور سامراجی قوتوں سے آزادی کا آفاقی پیغام دینے کی بھرپور کوشش کی ہے، اسی لیے بعض اوقات اقبال پر مثالیت پسندی کی بھپتی کسی گئی۔

اقبال اپنی شاعری میں جدید مغربی تہذیب اور سامراجی جمہوریت کو دلائل کیساتھ مسترد کرتے ہیں اور "ابلیس کی مجلس شوریٰ" نامی نظم میں ایک مناظرے کے پیرائے میں عہد حاضر کی ثقافتی یلغار اور جمہوری نظام کو بڑے واضح انداز میں بیان کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ابلیس کی زبانی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

میں نے دِکھلایا فرنگی کو مُلوکیّت کا خواب

مَیں نے توڑا مسجد و دَیر و کلیِسا کا فسوں

مَیں نے ناداروں کو سِکھلایا سبق تقدیر کا

مَیں نے مُنعِم کو دیا سرمایہ داری کا جُنوں

آگے چل کر ابلیس کے ایک مشیر کا مطمع نظر بیان کرتے ہیں

اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ اِبلیسی نظام

پُختہ تر اس سے ہوئے خُوئے غلامی میں عوام

یہ ہماری سعیِ پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و مُلّا مُلوکیّت کے بندے ہیں تمام

ابلیسی مشیر مزید کہتا ہے

ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہُوری لباس

جب ذرا آدم ہُوا ہے خود شناس و خود نگر

کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے

یہ وجودِ مِیر و سُلطاں پر نہیں ہے منحصَر

مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو

ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام

چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

علامہ اقبال کے ان اشعار کو پڑھ کر اور ان پر غور و فکر کر کے کیا انسان اس نتیجے پر نہیں پہنچتا کہ اقبال نے جن خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا تھا، آج دنیا اس کے محاصرے میں آ چکی ہے۔ دنیا سرمایہ کاری اور نام نہاد جمہوریت کے شکنجے میں سسک رہی ہے، عالمی سامراج امریکہ نے محروم اور مستضعف اقوام کی کھیتی پر ہاتھ صاف کر کے چنگیزیت کو شرمندہ کر رکھا ہے۔ 9 نومبر علامہ اقبال کا یوم پیدائش، ایک بار پھر انسانیت کو حق و حقیقت کیطرف واپسی کا پیغام دے رہا ہے، اگر امت مسلمہ اور حریت پسندی کے راستے پر چلنے والی انسانیت نے اقبال کے خدشات و تحفظات کو درک نہ کیا تو آج کی نسل بھی قوالوں کیطرح کلام اقبال کا تکرار کرتی رہے گی اور عالمِ بالا میں اقبال کی روح بے چین و بے تاب ہو کر تڑپتی رہے گی، "اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا۔۔۔۔۔ماضی تو سنہرا تھا مگر حال کھو گیا"

ای میل کریں