دنیا کے مظلوموں کی مدد کرنا ہمارا شرعی فریضہ ہے
حضرت امام خمینی (رہ) دنیا میں وہ واحد راہنما ہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوموں کے لئے صدائے احتجاج بلند کی، صرف صدائے احتجاج ہی نہیں بلکہ آپ نے ملت کو ایک منشور عطا کیا کہ فلسطین سمیت دنیا کے مظلوموں کی مدد کرنا نہ صرف ہمارا اخلاقی بلکہ شرعی فریضہ ہے، آپ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ ''جمعة الوداع'' کو مظلوم فلسطینیوں سے ہمدردی اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کا دن قرار دیتے ہوئے ''یوم القدس'' قرار دیا اور فرمایا کہ ''یوم القدس، یوم اللہ، یوم اسلام اور یوم رسول اللہ (ص) ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار (امریکہ اور اسرائیل) کی خدمت کرتا ہے۔'' یہی وجہ ہے کہ آج دنیا نے امام خمینی (رہ) کی زندہ و جاوید سیرت اور افکار کو فراموش نہیں کیا ہے اور دنیا بھر میں آج مظلوم فلسطینیوں کے لئے آواز بلند کی جا رہی ہے، جس کا سہرا یقیناً حضرت امام خمینی (رہ) کے سر ہے۔
یہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت ہی تھی جنہوں نے دنیا کے مظلوموں کو تمام ظالموں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا، مظلومین جہاں کو قوت عطا کی، زبان عطا کی، حوصلہ دیا کہ وہ مبارزہ میں شامل ہوں، دنیا کے ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں، آپ نے دنیا کے تمام ان مظلوموں کی حمایت کی، جنہیں عالمی استعماری قوتوں نے جبری طور پر مظلوم (مستضعف) بنا دیا تھا، آپ نے اپنی ملت اور امت اسلامی کو تاکید کی کہ دنیا کے مستضعفین کی حمایت جاری رکھی جائے، آپ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً ہی بعد فلسطین کے مظلوم عوام کی عملی طور پر مدد کا اعادہ کیا اور سرکاری سطح پر فلسطین فنڈ سمیت فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت و نصرت کو اسلامی انقلاب کی اولین ترجیحات میں قرار دیا، جس کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران میں پہلے سے موجود اسرائیلی سفارت خانہ کو بند کر دیا گیا اور اس عمارت کو فلسطینی سفارت خانہ بنایا گیا۔
امام خمینی نے دین و سیاست کا ایک ایسا امتزاج پیش کیا ہے اور اس میں عملی حصہ لیکر پوری دنیا پر اسلامی سیاست کا وہ عملی نمونہ پیش کیا ہے کہ جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ امام خمینی نے اْن لوگوں کا یہ نظریہ بھی غلط ثابت کیا ہے کہ دین و سیاست دو جدا مفہوم ہیں اور اْن لوگوں کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیا ہے جن کے نزدیک سیاست ایک گندا کھیل ہے، جس میں علماء کو داخل نہیں ہونا چاہیے۔ امام خمینی (رہ) نے دنیا کے مسلمانوں کو بتایا کہ اگر اسلام کے اجتماعی احکام کو نکال دیا جائے تو اس دین مبین میں سے سوائے بے روح جسد کے اور کچھ باقی نہیں رہتا، اسلام کا ایک بڑا حصہ اجتماعیات پر مشتمل ہے اور اس کا اجراء کرنا بھی اقتدار اور حاکمیت کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے۔ لہذا اسلام کو ہم ایک فردی دین اور لوگوں کی خصوصی زندگی سے مخصوص مذہب نہیں قرار دے سکتے۔ دین کو سیاست سے جدا کرنے کی بات یا تو اصل دین کے بارے میں کج فہمی کا نتیجہ ہے یا بدخواہوں کے پروپیگنڈے کا اثر ہے۔