اسلام اور علماء کے خلاف ہونے والی سازشوں کی اصلی وجہ
امام خمینی (رح) نے اسلام اور علماء کے امام خمینی (رہ) نے اسلامی ممالک بالخصوص ایران میں اسکتباری طاقتوں کے پیر جمانے کے طریقوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ، روس اور برطانیہ نے اسلامی ممالک میں سیاحوں کے روپ میں قدم جمائے اور انہوں نے تمام شہروں، دیہاتوں کا سروے کیا حتی ان جنگلوں کا بھی جن میں گھاس اور پانی کا نام و نشان بھی نہیں تھا اور ان کا سب سے بڑا مقصد ان ممالک کے معدنیات تھے اور ان کے لئے وہ علامتیں، نشانیاں وغیرہ رکھ کر جاتے تھے کہ کہاں سے پٹرول نکالا جا سکتا ہے، کہاں سے سونا، تانبا، گیس وغیرہ نکالے جا سکتے ہیں، سب سے پہلے برطانیہ اور اس کے بعد روس اور پھر امریکہ اور دوسرے ممالک نے یہ کام کیا اور یہ پروگرام انہوں نے تقریباً تین سو سال پہلے بنایا تھا اور بعد میں انہوں نے اس سلسلہ میں ماہرین بھیجے۔ انہوں نے ہمارے ممالک میں ہم سے زیادہ کام کیا اور ان کی معلومات ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ البتہ انہیں کامیاب بنانے میں خیانتکار سربراہ اور سلاطین نے بہت اہم رول ادا کیا اور اگر بعض خیانتکار نہیں بھی تھے تو تب بھی وہ ان کے سامنے تمام پہلوؤں میں تسلیم ہوجاتے تھے۔
امام (رہ) نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے اسکتباری طاقتوں کے راستہ میں رکاوٹ بننے والے اسباب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسکتباری طاقتوں نے معدنیات پر قبضہ جمانے کے لئے اپنی راہ میں دو رکاوٹیں محسوس کیں۔ پہلی رکاوٹ اسلام ہے کہ اگر اسلام اپنے حقیقی معنوں میں سماج میں نفوذ پیدا کر لے تو ہمیں مکمل طور پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا لہذا اسلام کے بارے میں پروپگنڈے تیار کرنا شروع کر دئے اور دوسری رکاوٹ علماء تھے کہ اگر علماء کے ہاتھ میں ان ممالک بالخصوص ایران کا نظام آ گیا تو تب بھی ہمیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ ان کا سروکار پوری قوم سے ہے اور اگر انہوں نے طاقت پکڑ لی تو پورے ملک کا نظام ان کے ہاتھوں میں آ جائے گا۔ لہذا استکباری طاقتوں نے ان دونوں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے یہ کارنامہ خود ملک کی قوم سے کروانا چاہا کہ علماء سے دور رہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے پروپگنڈے شروع کئے اور انہوں نے بھی محسوس کیا کہ کسی بھی اسلامی ملک بالخصوص ایران کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے ہمیں یہ دو رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی تاکہ ہم اپنے منافع میں کامیاب ہو پائیں اور باقی خطرات ویسے نہیں ہیں جس طرح کی یہ دو بنیادی خطرے ہیں۔
امام (رہ) نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں بیان کیا کہ انہوں نے اسلام کو منحرفانہ انداز میں پیش کیا کہ اسلام ایک ایسا مکتب ہے جو دعا و ذکر اور لوگوں کے اپنے خالق سے رابطہ کے سلسلہ میں ہے اور اسلام کا سیاست اور حکومت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسکتبار نے اسقدر منفی رول ادا کیا کہ حتی بہت سے علماء بھی ان کے ہم عیقدہ ہوگئے کہ ایک عالم دین کو سیاست سے کیا لینا دینا ہے۔ عالم کا کام صرف مسجد میں محدود کر دیا کہ عالم صرف مسجد میں نماز وغیرہ میں مصروف رہے اور بس لہذا انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اسلام اور علماء کی نماز سے انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ اپنی تعلیم و مباحثہ میں لگے رہیں اور سیاست سے دور رہیں۔