نجف سے کربلا پیادہ روی کی سرسری تاریخ
تحریر: سید اسد عباس
دنیا میں پہلا شخص جس نے کسی دوسرے شہر سے قبر امام حسین علیہ السلام کی جانب سفر کیا، صحابی رسول ص حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ہیں، آپ چہلم سید الشہداء کے موقع پر مدینہ سے سفر کرکے کربلا تشریف لائے اور چند روز اس مقام پر قیام کیا، دوسرا قافلہ جو اس قبر کی زیارت کے لیے کربلا میں اترا اسیران کوفہ و شام کا قافلہ ہے، جو رہائی کے بعد مدینہ جاتے ہوئے کربلا میں چند روز مقیم رہے۔ توابین بھی کوفہ سے کربلا آئے اور نہر فرات پر انھوں نے غسل شہادت کے بعد اپنی تحریک کا آغاز کیا، جس کا نعرہ یا لثارات الحسینؑ تھا۔ زیارت امام حسین علیہ السلام کا یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے، ہر صاحب توفیق نے قبر حسین علیہ السلام پر حاضری کے ذریعے امامؑ عالی مقام کے مزار اقدس پر اپنی عقیدتوں کے پھول نچھاور کیے۔ مسلمان تو ایک جانب غیر مسلم بھی اس زیارت پر حاضری کو اپنے لیے شرف گردانتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند سے سکھوں کے روحانی پیشوا گرونانک بھی کربلا اور دیگر عتبات عالیہ پر حاضر ہوئے اور یہ سلسلہ یقینا تا قیام قیامت جاری و ساری رہے گا۔
2016ء میں مجھے بھی قبر امام حسین علیہ السلام اور عتبات عالیہ نجف، کاظمین و سامرہ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، بصرہ سے نجف اور کربلا، نجف و کربلا سے کاظمین و سامرہ راستے میں مجھے بہت سے ایسی عمارتیں نظر آئیں جن پر لفظ موکب لکھا ہوا دیکھا۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ فقط اربعین کے پیدل سفر کے لیے بھلا ان عمارتوں کی کیا ضرورت تھی، یہ کام تو عارضی قیام گاہوں میں بھی انجام دیا جاسکتا تھا، تاہم ماہ صفر میں اپنے قیام کے دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ عراقی تو سارا سال ہی اس سفر میں رہتے ہیں۔ معصومینؑ کی شہادت اور ولادت کی مناسبت سے وہ لوگ پیدل قریبی مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ عراق میں قیام کے دوران اربعین یعنی 20 صفر گزر گئی اور اٹھائیس صفر آگئی جو کہ شیعہ منابع کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور امام حسن علیہ السلام کا روز رحلت ہے، 27 کی شام ہی ہم نے دیکھا کہ پیدل چلنے والوں کے قافلے حلہ اور مضافات سے حرم امیر المومنین علیہ السلام کی جانب گامزن ہیں اور وہ موکب جو 22 یا 23 صفر کو بند ہو گئے تھے، ایک مرتبہ پھر آباد ہو چکے ہیں۔ پیدل چلنے والے لوگ ان مقامات پر رہائش پذیر ہیں، وہی مشی کا ماحول ہے جو دنیا کے گوش و کنار سے آنے والے اربعین کے موقع پر ملاحظہ کرتے ہیں۔
عراق میں زیارت کے اس پیدل سفر کو مشی کہا جاتا ہے، جس کا اربعین کے موقع پر خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد مشی کے لیے آنے والے محبان اہل بیت کی تعداد میں ہر برس اضافہ ہی ہو رہا ہے، دنیا میں انسانوں کے اجتماعات کا حساب و کتاب رکھنے والوں کے مطابق اربعین حسینیؑ دنیا کا دوسرا بڑا اجتماع ہے، جس میں حاضرین کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے۔ مشی عموما نجف سے کربلا کی جانب کی جاتی ہے، جو قریبا اسی کلومیٹر سے کچھ زائد کا فاصلہ ہے۔ عزاداران امام حسین علیہ السلام بلا تفریق مذہب و ملت یہ سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک الگ سے راہ مختص ہے، جس کے ہر چپے پر موکب موجود ہیں جہاں ان عزاداران سید الشہداء کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ موکبوں کا یہ سلسلہ نجف سے کربلا تک ہی نہیں، عراق کے چپے چپے بالخصوص مقام ہائے زیارت کے گرد و نواح میں پھیلا ہوا ہے۔ بیرونی دنیا سے آنے والے احباب تو نجف سے کربلا تک ہی پاپیادہ سفر کرتے ہیں، تاہم عراق کے رہنے والے افراد کی ایک کثیر تعداد بصرہ، سامرہ، کاظمین، حلہ، کوفہ سے کربلا تک کا سفر پا پیادہ کرتے ہیں۔
نجف سے کربلا کی جانب اس پا پیادہ سفر کی منظم روایت کا آغاز تیرھویں صدی ہجری ہے، شیعہ مجتہد شیخ مرتضیٰ انصاری نے کیا۔ شیعہ محدث میرزا حسین نوری بھی ہر سال پیدل امام حسینؑ کی زیارت کرتے تھے۔ سید محمد مہدی بحر العلوم اہل طوریج کے دستہ عزا کے ساتھ ہمیشہ پیدل زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ جعفر کاشف الغطاء پابندی کے ساتھ پیدل زیارت پر جایا کرتے تھے۔ پیدل سفر کا آغاز ان روایات کی وجہ سے ہوا، جس میں پا پیادہ حج کرنے اور زیارت امام حسین علیہ السلام کی تشویق دلوائی گئی ہے۔ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے خود سواری موجود ہونے کے باوجود حرم خدا تک کا سفر متعدد مرتبہ پا پیادہ کیا، آج عزادارن امامؑ مظلوم پا پیادہ ان کے حرم پر حاضری کو جاتے ہیں۔ مشی کا یہ سفر حج بیت اللہ کی مانند مختلف نسلوں، اقوام اور گروہوں کے مسلمانوں کے ایک عظیم الشان اجتماع کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، جس میں سیاہ لباس زیب تن کیے عشاق حسین علیہ السلام پیدل چل کر امام حسین علیہ السلام سے اپنی وابستگی اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں کی مانند اس برس بھی یقینا لاکھوں زائرین امام حسین علیہ السلام اربعین کے موقع پر کربلا میں حاضری دیں گے۔
خداوند کریم زائرین حرم امام کے اس سفر کو آسان اور محفوظ بنائے اور دنیاوی و اخروی سعادتوں کا باعث قرار دے۔ آمین