نجف تا کربلا، سفر عشق و شعور
تحریر: توقیر کھرل
امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین علیہ السلام کے چہلم میں چند روز باقی ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی کروڑوں افراد کربلا میں چہلم امام حسین کے لئے پہنچ رہے ہیں، جوں جوں اربعین کے دن قریب آرہے ہیں دل کی عجیب حالت ہورہی ہے اور دل امامؑ کے روضہ کی طرف کھنچا چلاجارہا ہے۔ نجف سے کربلا پیدل زیارت کرنے والوں کیلئے اہل عراق کی خدمت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ایسی محبت کہ جس کا نظارہ کہیں اور نظر نہیں آتا، ایسی چاہت کہ دل جس کا معترف ہو جائے، ایسی اپنائیت کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے، ایسا ماحول کہ جس میں آپ ایک بار جا کر ہمیشہ کیلئے کھو جائیں، ایسا منظر کہ جس کا نظارہ آپ کی آنکھوں میں گھر کر لے، ایسا سفر کہ آپ کو جنت کا احساس ہو، آپ جنت کے مسافر بن جائیں یہ سفر عشق کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن درمیان میں صدام کے دور حکومت میں یہ سلسلہ کم ہوگیا تھا۔
صدام کی حکومت کے خاتمہ کے بعد زائرین پیدل عراق کے شہروں نجف، بغداد، بصرہ اور کوفہ سے روانہ ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیدل کربلا کی طرف سفر میں زائرین کی تعداد بڑھنے لگی اور ہر سال اس تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ نجف سے کربلا کے درمیان 80کلومیٹر کی مسافت میں دائیں طرف جگہ جگہ امام بارگاہیں یا سبیلیں نظر آتی ہیں۔ انہیں موکب کہتے ہیں پورے راستے میں بہت کم ہی خالی جگہیں نظر آتی ہیں۔ ہر جگہ پر موکب ہی موکب نظرآتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق چھ ہزار تک موکب ہوتے ہیں اور جن میں ایک لاکھ لوگ زائروں کی خدمت کرتے ہیں۔ عراقیوں کی معاشی حالت بہتر نہیں، لیکن پھر بھی ہر عراقی کی کوشش ہوتی ہے وہ کچھ نہ کچھ کھانے کو پیش کردے۔ پیدل سفر کرنے والوں کی خدمت کے لئے جس خاندان کے پاس جو دستیاب ہوتا ہے، مسافروں کیلئے لاتے ہیں، ایک عراقی نے بتایا وہ ہر سال جتنا خرچ کرتا ہے، اگلے سال تک اس کے مال میں تین گنا اضافہ ہوجاتا ہے، وہ چاہتا ہے اسکا نقصان ہی ہوجائے، کیونکہ اسے کوئی لالچ نہیں، وہ بس زائرین کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔
یہ مہمان نوازی صرف نجف سے کربلا ہی نہیں بلکہ وہ تمام راستے جو کربلا کی طرف جاتے ہیں، جیسا کہ کوفہ سے کربلا یا کاظمین، وہاں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوران سفر ہر عراقی کو ہاتھ جوڑ کر ایک ہی بات کہتے سنا کہ امامؑ کے نام پہ رک جاو اور میں نے جو دستر خوان لگایا ہے، یہاں سے کچھ کھالو۔ یہ عراقی زائرین کے استقبال کے لئے خدمت کی عجیب مثال قائم کرتے ہیں، جس سے جیسے بھی ممکن ہو زائرین سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ جہاں کہیں سے بھی گزریں آپ کو خوش آمدید کی آوازیں آتی ہیں۔ کربلا کے راستے میں زائرین کے لئے کیمپ میں ایک عراقی کو زائرین کو خدمت کرتے ہوئے دیکھا تو عراقی خادم سے پوچھا آپ زائرین کی دل و جان سے خدمت کرتے ہیں، جب یہ کروڑوں لوگ اپنے اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟۔ جانتے ہیں دن رات زواروں کی خدمت کرنے والے اُس شخص نے کیا کہا، اس شخص نے کہا جب یہ زائرین یہاں سے روانہ ہو جاتے ہیں تو گویا ہماری روح ہی نکل جاتی ہے، ایک طویل انتظار کا سلسلہ شروع ہو جاتا کہ کب اربعین کے دن آئیں گے اور کب زائرین کی خدمت کریں گے۔
یہ جذبہ صرف ایک موکب پر موجود عراقی کا نہیں ہے، بلکہ تمام خادمین کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ا ب اگر پیدل چلنے والوں کا حال بیان کروں تو پیدل چلنے والوں سے اس طویل سفر کا جواز پوچھا جائے، سوائے عشق کے کوئی جواب نہیں ملتا، پیدل جانیوالوں کے اس سفر عشق میں کچھ لوگ اکیلے کچھ گروہ کی شکل میں چلتے ہیں، بہت سے لوگ زیر لب دعا پڑھتے ہیں، کچھ تسبیح میں مصروف نظر آتے ہیں، شیر خوار بچوں سے لیکر ویل چئیر پر بیٹھے مرد و خواتین سب اس عظیم مارچ میں نظر آتے ہیں، اس مارچ میں سب سے بڑی تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے، جو کربلا کی سمت بڑھتے ہیں۔ اس عظیم مارچ میں پیدل چلنے والوں کے منہ سے مختلف زبانیں سنی جاسکتی ہیں، مگر مختلف زبانوں میں بات کرنے والے ایک ہی بات کرتے ہیں وہ امام حسین علیہ السلام کی بات ہوتی ہے۔
یہاں جغرافیائی سرحدیں مٹ جاتی ہیں، قومیت کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے، یہاں سب ہی لوگ ایک ہی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں، یعنی امام حسینؑ کا رنگ۔ یہ سب حسینی ہیں، امامؑ کی سلطنت کے شہری ہیں، یہ حسینی جہاں بھی آباد ہوں لیکن امام کی سلطنت کا درالحکومت کربلا ہے اور پیدل چلنے والے یہ عشاق یہ کہتے نظرآتے ہیں شکریہ یا حسینؑ، ہم سب کو یکجا کردیا۔ امام حسینؑ کی چاہت دل میں تمام خوبیوں سے چاہت کرنے کی طرح ہے یہ کیسا ہوسکتا ہے امامؑ کے عشق میں درجنوں میل پیدل سفر کرنے والا جب گھر واپس آئے تو گناہوں سے دور نہ رہے؟ جی چاہتا ہے پھر سے اس کربلائی دنیا میں چلا جاوں، لیکن یہ وقت تزکیہء کا ہے کہ سفر عشق میں امام حسینؑ سے کئے ہوئے وعدوں پر کتنا عمل کیا۔؟