امام خمینی (رح) کی نظر میں جہنم والوں کا فیصد
سوال یہ ہے کہ غیر مسلم یا فقہ کی اصطلاح میں کافر، اسلام کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے یا صرف اسلام کا عقیدہ نہ رکھنے کی وجہ سے بارگاہ خداوندی میں ان کے جہنمی ہونے کی قابل قبول دلیل نہیں ہوگی اور اس لحاظ سے کبھی مورد مذمت واقع نہیں ہوں گے؟
اگر ہم معتقد ہوں کہ غیر مسلم نے اسلام کی آواز سنی لیکن اسے قبول نہیں کیا اس لئے الہی عذاب اور سزا کے مستحق ہوں گے؛ پھر انسانی محور پر باہم زندگی کو بہتر بنانے اور ایک دوسرے کی نسبت محبت اور خیر اندیشی کا نظریہ نہیں پایا جائے گا۔ بلکہ ہمیشہ غیظ و غضب کی ان پر نظر ڈالیں گے، کیونکہ وہ لوگ مردود بارگاہ خداوندی ہیں اور عذاب الہی کے شعلے ان کا انتظار کررہے ہیں۔
کافر اسے کہتے ہیں جو دین اسلام کے علاوہ کا ماننے والا ہو یا اسلام کا گرویدہ ہو لیکن ضروریات دین کا جان بوجھ کر اس طرح انکار کرے کہ اس کا انکار رسوخدا (ص) کی رسالت یا پیغمبر (ص) کی تکذیب یا شریعت مطہرہ کے ناقض جاننے پر تمام ہو۔ یا اس سے ایسی حرکت صادر ہو یا کوئی بیان دے جو اس کے کفر کا باعث ہو۔ اس میں فرق نہیں کہ وہ مرتد ہو یا کافر اصلی، خواہ حربی ہو یا غیر حربی، ذمی رہے یا ناصبی اور خوراج (خدا ان پر لعنت کرے) ؛ نجس ہیں، اور ان کا نجس ہونا اس بات کا مشروط نہیں ہے کہ وہ لوگ بھی انکار کرتے ہوں کہ ان کا انکار رسالت کے انکار پر تمام ہو رہا ہو۔ رہے غالی؛ کہ اگر ان کا غلو، خدا یا توحید یا نبوت کے انکار کا باعث ہو تو وہ کافر ہے ورنہ نہیں۔
مذکورہ بالا متن سے استفادہ ہوتا ہے کہ امام (رح) ہر غیر مسلم کو کافر جانتے ہیں اور اس لحاظ سے عیسائی، یہودی، زرتشتی اور بے دین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور ان سب پر کفر کے احکام جاری ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ مسلمان بھی جو خوارج اور ناصبی ہیں، ان پر کفر کے احکام جاری ہوں گے۔ آیا غیر مسلم کی اکثریت جہنمی ہیں اگر چہ اسلام کی حقانیت کو نہ سمجھا ہو اور اسلام کے برحق ہونے کا عقیدہ نہ رکھتے ہوں اور ان کے پاس (جہل مرکب) جیسی قطعی دلیل ہو؟
اتفاق سے حضرت امام خمینی (رح) نے اس موضوع میں بحث کی ہے اور اپنے ممتاز شاگرد مرحوم آیت اللہ منتظری سے اس مسئلہ میں سنجیدہ اختلافات رکھتے ہیں کہ اس بحث کا نقل کرنا ہر دو فقیہہ کے عالمی نظریات کو روشن کردے گا۔
حضرت امام خمینی (رح) اس بحث کو حاہل مقصر اور جاہل قاصر کے عنوان سے دو قسم میں تقسیم کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر ثابت ہوجائے کہ اکثر غیر مسلم جاہل مقصر ہیں تو وہ دوزخی ہیں اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ غیر مسلموں کی اکثریت جاہر قاصر ہیں، تو جہنمی نہیں ہوگی۔ لیکن امام غیر مسلموں کی اکثر کو جاہل قاصر جانتے ہیں۔ لہذا انہیں مستحق عقاب اور عذاب بھی جانتے ہیں۔ آپ دلیل دیتے ہیں کہ اس کے لئے عقل اور اصل عدالت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر غیر مسلموں کی اکثریت عوام ہوں تو وہ لوگ پہاڑ کی طرح ماحول اور اپنے آشنا کے بیانات سے اپنے مکتب کی حقانیت کے بارے میں استوار رہتے ہیں۔ اور اس کے غلط ہونے کا احتمال بھی نہیں دیتے اور حجت قطع کے ذاتی ہونے کی بنیاد پر قاطع شخص اپنی قطع (یقین) میں معذور ہے اور اسے سزا دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ اور اگر غیر مسلموں کی اکثریت ان کی علماء کی ہو تو وہ لوگ فکری انحرافات کہ جس کی جڑ ان کے اختیار میں نہیں رہی ہے، کی وجہ سے اپنے مذہب کی حقانیت کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ہر دن اسے ثابت کرنے کے لئے دلیل تراشی کرتے ہیں اور ان کا کام اول سے آخر تک قطع پر تمام ہوتا ہے اور قاطع کو ایک غیر اختیاری امر پر سزا دینا عقل و عدل کے خلاف ہے۔
امام خمینی (رح) اس بحث کو آگے بڑھانے کے لئے ایک مثال دیتے ہیں جو قابل غور ہے اور وہ اس سلسلہ میں کفار کی خود مسلمانوں سے تشبیہہ ہے یعنی جس طرح مسلمان جاہل قاصر اور مقصر ہیں اور قاصرین کی اکثریت ہے اور یہ اکثریت عالم اور عوام دونوں کو شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے جاہل افراد بھی ہیں، پس جس طرح مسلمانوں میں جاہل کو سزا نہیں دی جائے گی اسی طرح جہاں کفار بھی سزا نہیں پائیں گے۔ آپ نے اس بحث میں شاید اخلاق کے سنہرے قانون کا استعمال کیا ہے یعنی جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے لئے پسند نہ کرو۔