فلسطینیوں کی امریکی صدر کو 10 ارب ڈالر کی پیشکش
تحریر: صابر ابو مریم
مسئلہ فلسطین تاریخ کے نازک ترین اور حساس دور سے گزر رہا ہے۔ یہ فلسطین کی ایک سو سالہ تاریخ میں اہم ترین موڑ ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ نے بھی فلسطین کے مسئلہ کو اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کو نابود کرنے کے لئے جس فارمولہ کی پیشکش کی ہے، اسے ’’صدی کی ڈیل‘‘ یا صدی کا فارمولا نام دیا ہے۔ گذشتہ دنوں ہی بحرین کے دارالحکومت منامہ میں امریکی قیادت میں صدی کی ڈیل کی مناسبت سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں امریکہ سمیت اسرائیل کے بڑے تاجروں اور چند خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے غیر اعلانیہ طور پر شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد فلسطین کے عوام کو مالی و معاشی پیشکش کرکے فلسطین سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کویت، اردن، پاکستان، لبنان، ایران اور شام سمیت دیگر ممالک نے اس فارمولہ کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ فلسطینیوں نے 2017ء سے ہی اس معاہدے کی بازگشت کی شنید کے ساتھ ہی اسے سختی سے مسترد کر دیا تھا، تاہم اب یہ صدی کی ڈیل کھلم کھلا مغربی و عربی ذرائع ابلاغ میں سامنے آچکی ہے۔ افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کے ذرائع ابلاغ اس صدی کی ڈیل کے بارے میں اس طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پائے، جیسا کہ پاکستان کی طرف سے کیا جانا چاہیئے تھا۔
مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا اور فلسطینیوں کو خطے میں محدود کرنے سمیت اسرائیل کی غرب ایشیائی ممالک میں بالادستی کو یقینی بنانا، صدی کی ڈیل کے خدوخال میں سب سے نمایاں حصہ ہے۔ یہاں یقیناً قارئین کو حیرت کرنا چاہیئے کہ صدی کی ڈیل جس کا مقصد صہیونیوں کی جعلی ریاست کا پھیلاو اور فلسطین سے دستبرداری سمیت فلسطین میں موجود مسلم امہ کے مقدسات سے بھی دستبرداری شامل ہے، اس بارے میں کانفرنس امریکہ اور اسرائیل میں نہیں ہوئی بلکہ مسلمان عربوں کے ملک بحرین میں منعقد ہوئی ہے۔
صدی کی ڈیل میں فلسطین کے بارے میں امریکی و اسرائیلی موقف کی حمایت کرنے والے تمام عرب ممالک اور ان کے بادشاہوں کو اقتصادی پیکجز دیئے گئے ہیں۔ ان پیکجز میں نمایاں ترین پیکج عرب ممالک کے بادشاہوں کی بادشاہت اور تخت کی حفاظت کی ذمہ داری امریکہ نے اٹھا رکھی ہے، جبکہ کچھ شہزادوں اور ولی عہدوں کو امریکہ نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کو آئندہ پچاس پچاس برس کی بادشاہت دی جائے گی اور ان کا تحفظ امریکہ کی ذمہ داری ہوگی۔ حیرت کی بات یہاں پر یہ ہے کہ امریکہ جو خود اپنی افواج کی اور اپنے مفادات کی حفاظت خود کرنے سے قاصر ہے، نجانے کس طرح یہ بے چارے عرب حکمران امریکی کاسہ لیسی اور جھانسوں میں پھنستے چلے جا رہے ہیں اور اپنے لئے اپنی جہنم کا سامان خود تیار کر رہے ہیں۔
بات فلسطین کی ہے تو آیئے فلسطینیوں کی بات کرتے ہیں کہ جنہوں نے پہلے ہی فلسطین کے سودے کو نامنظور کر دیا ہے، کسی بھی قسم کی دولت اور اقتصادی لالچ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بات یہان تک نہیں رکی ہے بلکہ فلسطینیوں نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ امریکی زعم اور تکبر کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ فلسطین میں اس وقت ایک بحث بہت تیزی کے ساتھ گردش کرتی نظر آرہی ہے، جس میں فلسطینی عوام کا کہنا ہے کہ امریکہ کو اسرائیل کا مفاد اتنا ہی عزیز ہے تو پھر صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو فلسطین سے نکال کر امریکہ میں قائم کر دیا جائے اور اس کام کے لئے فلسطینی عوام بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ فلسطینیوں نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کے عوام امریکی صدر کو دس ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں، لیکن بدلے میں امریکہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو فلسطین سے ختم کرے اور امریکہ میں آباد کرے۔ اس کام کے لئے فلسطین کا ہر بچہ بچہ اور ہر فرد دس ارب ڈالر کی رقم دینے کے لئے تیار ہے۔
واضح رہے کہ بحرینی دارالحکومت منامہ میں صدی کی ڈیل نامی منصوبہ کے تحت ہونے والی کانفرنس کے بعد سے ہی فلسطین کے سوشل میڈیا پر یہ میسج گردش کر رہا ہے کہ جس میں امریکی صدر کو فلسطینیوں کی طرف سے دس ارب ڈالر کی پیشکش کی گئی ہے اور اس کے عوض امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ وہ صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو امریکہ میں قائم کر لیں۔ منامہ میں ہونے والی کانفرنس بعنوان صدی کی ڈیل میں اقتصادی لالچ اور دباو کے ذریعے امریکہ نے کوشش کی تھی کہ مغربی ایشیائی ممالک کی عرب ریاستوں اور ان کے بادشاہوں کی مدد سے فلسطین کا سودا کر لیا جائے گا اور فلسطین کو خرید لیا جائے گا، لیکن فلسطین کے غیور اور شجاع لوگوں نے پوری دنیا کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ فلسطین بکاو مال نہیں ہے اور فلسطین کے عوام امریکی صدر کو دس ارب ڈالر کی پیشکش کر رہے ہیں کہ صہیونیوں کی جعلی ریاست کو امریکہ میں قائم کیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین کے مسئلہ کا بہترین راہ حل یہ بھی ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کی رائے کا احترام کرے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کو امریکہ میں قائم کر دے۔ امید ہے کہ دس ارب ڈالر کے عوض امریکی صدر کو یہ سودا قبول ہوگا اور انہیں یقیناً یہ سودا قبول کرنا چاہیئے کیونکہ اس سودے میں امریکہ کے لئے دو فائدے ہیں، ایک طرف امریکی صدر کو دس ارب ڈالر ملیں گے تو دوسری طرف امریکہ کے سالانہ بجٹ پر بھی دباو کم ہو جائے گا، کیونکہ جو مالی امداد اسرائیل کے لئے امریکہ بھیجتا ہے، یقیناً کافی حد تک کم ہو جائے گی۔ اسی طرح امریکہ کو ان تمام فوائد سے زیادہ فائدہ اسرائیل کی سلامتی کا ہوگا کہ اسرائیل کو امریکہ میں کسی سے خطرہ نہیں ہوگا۔ اس کام کے لئے جہاں فلسطینی عوام دس ارب ڈالر دینے کو تیار ہیں، وہاں یقیناً مسلم دنیا کی فلسطین حامی حکومتیں اور عوام بھی اس کار خیر میں حصہ لیں گے۔