اہل بیت(ع) کے قاتلین کا شجرہ نسب

اہل بیت(ع) کے قاتلین کا شجرہ نسب

تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے پیغمبر اسلام (ص) کو قتل کرنے کے لیے کیا کیا حربے نہیں اپنائے اور کیا کیا چالیں نہیں چلیں

اہل بیت(ع) کے قاتلین کا شجرہ نسب

تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے پیغمبر اسلام (ص) کو قتل کرنے کے لیے کیا کیا حربے نہیں اپنائے اور کیا کیا چالیں نہیں چلیں۔ لیکن اگر ان کے ان حربوں اور چالوں کو نظر انداز بھی کر لیا جائے تو اہل بیت پیغمبر (ع) کے قتل میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم یہاں پر اہل بیت(ع) کے قتل میں یہودیوں کے کردار کے چند نمونے پیش کرتے ہیں؛

۱۔ قنفذ جو خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کا غلام تھا وہ دراصل ایک یہودی زادہ تھا اور اس نے جناب زہرا(ع) کے گھر کے دروازے پر لات مار کر دروازہ آپ پر گرا دیا اور آپ کی پسلیاں چکنا چور ہو گئیں۔

۲۔ امام علی علیہ السلام کے سر پر جب ضربت لگی تو آپ نے فرمایا: مجھے یہودیہ کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے اسے گرفتار کر لو۔(۱)

ابن ملجم کا باپ یہودی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا اور اہل یمن کی جانب سے اس نے امام علی (ع) کی بیعت کی اور جنگ جمل و صفین میں شرکت کی لیکن صفین میں حکمیت کے بعد خوارج میں شامل ہو کر امام علی علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنایا۔(۳)

۳۔ امام حسن علیہ السلام کو زہر دینے والی ان کی بیوی جعدہ اشعث بن قیس کی بیٹی ہے۔ اشعث بن قیس ابوبکر کا بہنوئی تھا۔ اشعث وہ شخص ہے جس کو امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۱۹ میں منافق کہا ہے اور اس کے آباؤ اجداد بھی یہودی تھے۔

مروان بن حکم جنگ جمل میں اسیر ہو گیا امام حسن اور امام حسین علیہ السلام نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے پاس اس کی شفارش کی اور امام نے اسے رہا کر دیا۔ آپ سے کہا کہ اے امیر المومنین کیا وہ آپ کی بیعت کرے؟ فرمایا: ’’مگر اس نے عثمان کے قتل کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’انھا کف یھودیہ‘‘ یہ یہودی قسم کا ہاتھ ہے، اگر وہ اپنے ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقے سے اسے توڑ بھی ڈالے گا، یاد رکھو اسے بھی حکومت ملی گی لیکن اتنی دیر جتنی دیر میں کتنا اپنی ناک چاٹنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چار بیٹوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بدترین خونی دن دیکھنے والی ہے۔(۴)

مروان بن حکم کا ظاہری اسلام

مروان جو در اصل یہودی تھا جب مسلمان ہوا تو عثمان کا داماد بن گیا۔ اس کے بعد وہ اور اس کے چار بیٹوں نے دسیوں سال تک مسلمانوں پر حکومت کی۔ مدینہ کے اطراف کے یہودیوں کہ جنہوں نے خیبر میں شکست کھائی اور بنی قریظہ کے قضیہ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا، بظاہر مسلمان ہوئے۔ مروان بن حکم جو یہودی زادہ تھا مرگ یزید کے بعد اس نے حکومت کی لگام سنبھالی، اور اس کے بعد اس کے بیٹوں نے سالہا سال حکومت کی اور مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا۔ (۵)

امام زین العابدین (۶) اور امام محمد باقر(۷) علیہما السلام بھی مروان بن حکم کے زہر سے شہید ہوئے۔ امام کاظم علیہ السلام بھی سندی بن شاھک یہودی کے زہر سے شہید ہوئے۔(۸)

یہودی اور بنی امیہ

یہودی اسلام کے سخترین دشمن ہونے کے عنوان سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کفار اور منافقین کو استعمال کرتے تھے۔ اس درمیان بنی امیہ کہ جو کفار کا ایک اہم گروہ تھا کو یہودیوں نے اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ یہاں پر ہم یہود اور بنی امیہ کے درمیان کچھ اہم تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں؛

۱۔ امیہ کو ہاشم کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے مکہ بدر کر دیا گیا تھا اور وہ شام چلا گیا تھا۔(۹) اس دوران امیہ شام میں اہل کتاب کے ساتھ آشنا ہوا اور ان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار کئے۔ یہاں سے اہل کتاب اور بنی امیہ کے درمیان تعلقات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔(۱۰)

۲۔ جنگ خندق میں بھی یہودیوں اور ابوسفیان کے درمیان رسول خدا کی دشمنی پر گٹھ جوڑ ہوا اس کے بعد کہ یہودیوں نے قریش کے بتوں کے آگے سجدہ کیا ان کے دین کو اسلام سے بہتر قرار دے دیا۔(۱۱)

۳۔ یہودی علما جیسے کعب الاحبار اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں داخل ہوئے اور مدینہ سے اسلامی طاقت کو شام منتقل کرنے میں معاویہ کے مددگار ثابت ہوئے۔(۱۲)

کعب الاحبار یہودی تھے انہوں نے جعلی روایتیں گڑھ کر شام کو مقدس سرزمین کے عنوان سے پہچنوانے کی کوشش کی، مثال کے طور پر وہ کہتے تھے: ’’پیغمبر اسلام کی جائے ولادت مکہ، اور ہجرت مدینہ اور حکومت شام ہو گی‘‘۔ (۱۳)

کعب الاحبار نے دمشق کے بارے میں بہت ساری حدیثیں جعل کی۔ انہوں نے اپنی حدیثوں میں دمشق کو بہشتی شہروں میں سے ایک شہر قرار دیا(۱۴) اور شام کو اسلام کی خیمہ گاہ (۱۵) اور اہل شام کو ہمیشہ حق کا تابع اور مدافع گردانا،(۱۶) لشکر شام کو جنت کے سبز پیالوں سے تشبیہ دی(۱۷) اور پیشنگوئی کی کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ روئے زمین کے ہر خطے پر لشکر شام ہو گا اور اسلام کا دفاع کر رہا ہو گا اور اگر شامی نہیں ہوں گے تو سب کافر مر جائیں گے۔ (۱۸)

سادہ لوح افراد ان باتوں پر یقین کر کے شام کے لشکر میں شامل ہو جاتے تھے۔ اسی وجہ سے لشکر شام کی تعداد تین لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ ہو گئی تھی۔ (۱۹)

۴۔ بنی امیہ کا شجرہ نسب در حقیقت رومی اور یہودی تھا۔ بعض روایات(۲۰) کے مطابق امیہ عبد الشمس کا بیٹا نہیں تھا بلکہ رومی غلام تھا کہ جو بعد میں اس کی چالاکی اور ہوشیاری کی بنا پر جناب عبد الشمس نے اسے منہ بولا بیٹا بنا لیا جس کے بعد وہ قبیلہ قریش میں نفوذ پیدا کر گیا اور اس بات کے پیش نظر کہ اس دور میں منہ بولا بیٹا بھی باقی بیٹوں کی طرح مانا جاتا تھا طول تاریخ میں امیہ اور اس کی اولاد بنی ہاشم کی دیگر اولاد کی طرح مشہور ہوئی۔

۵۔ تازہ مسلمان شدہ یہودیوں جیسے کعب الاحبار، ابوہریرہ اور عبد اللہ بن سلام میں سے کسی ایک نے بھی امام علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی اور وہ ہمیشہ شام میں معاویہ کے گرد و نواح رہے۔

حواشی

 

1۔ منتهي الآمال، جلد ۱، ص ۲۵۸٫

 

2۔ ره آورد مبارزات حضرت زهرا سلام الله عليها، ص ۱۲۱

 

3۔ منتهي الآمال، جلد ۱، ص ۳۴۲،

 

4۔ نهج البلاغه،‌خطبه ۷۳٫

 

5۔ ره آورد مبارزات حضرت زهرا سلام الله عليها، محمد دشتي، ص ۱۲۰-۱۲۱،‌مؤسسه فرهنگي تحقيقاتي اميرالمؤمنين(علیه السلام)، ۱۳۸۱٫

 

6۔ منتهي الآمال، ج۲، ص ۶۲٫

 

7۔ منتهي الآمال، ج۲، ص ۱۷۲٫

 

8۔ منتهي الآمال، ج۲، ص ۳۱۰٫

 

9۔ الطبقات الکبری، ج۱ ص۶۲

 

10۔ اثر اهل الکتاب فی الفتن و الحروب، ص۴۴

 

11۔ جواهر التاریخ، ج۲ ص۳۳

 

12۔ تاریخ الطبری، ج۴ ص۲۴۳- تاریخ دمشق، ج۳۹ ص۳۰۷- الکامل، ج۳ ص۱۵۶؛ السنه، ابوبکر خلال، حدیث ۳۴۸٫

 

13۔ سنن الدارمی، ج۱ ص۱۵۶، ح۵

 

14۔ وہی، ج ۱، ص ۱۶۳٫

 

15۔ وہی، ص ۱۷۰-۱۷۸٫

 

16۔ وہی، ص ۱۸۷-۱۹۷٫

 

17۔ وہی، ص ۲۰۲٫

 

18۔ وہی، ص ۱۴۵٫

 

19۔ وہی، ص ۲۰۱٫

 

20۔ بحار الانوار، ج۳۱، ص۴۵۸٫

ای میل کریں