ماه محرم اور عزاداری کی عظمت
محرم کا مہینہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں انسانیت ساز، زنده و جاوید ایک تاریخ ہے۔ محرم خونین انقلاب کا آغاز اور مظلومیت کی زندہ و تابندہ مثال ہے۔ اس ماہ محرم میں حق کو باطل پر فتح و کامیابی، انسانیت کو زندگی اور ابدی حیات ملی ہے۔ ماہ محرم ایک بے مثال اور لاجواب انقلاب کا مجموعہ ہے۔ اس ماہ محرم میں اسلام کے خونین مقابلہ کے شگوفوں کے کھلنے کا موقع ملا۔ یہ مہینہ فاسد اور ظالم و جابر نظام اور ظلم و جور سے بھری حاکمیت کے زوال کا آغاز ہے۔ اسلامی راہ و روش سے ہٹے ہو اجتماعی اور سماجی نظام کی اصلاح کا مہینہ ہے۔ محرم عمیق انقلاب اور دروس نتائج کی حامل اور تاریخ ساز تبدیلی کا نام ہے۔ یعنی ایک منحرف اور فاسد نظام اور حکومت کے خلاف ایک انقلابی مکتب فکر کا نام ہے۔ اس ماہ عزا میں حسینی اور اسلام کے جاں نثار اور فدائی چاک گریباں جان کی قربانی دینے اور جام شہادت نوش کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ انسانیت کے خون سے ہولی کھیلنے والوں، بندروں اور کتوں سے بازی کرنے والوں، دین و شریعت کا مذاق اڑانے والوں، ناموس انسانیت کی عصمت دری کرنے والوں کے فاسد افکار و خیالات کے خلاف ایک انقلاب کا نام ہے۔ محرم کا مہینہ انسانی وجود اور افکار میں انقلاب اور تبدیلی لانے کا مہینے ہے۔ سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے اور عالم انسانیت و آدمیت کو بیدار کرنے اور اسی کے صحیح اور حقیقی اقدار کی پاسداری اور حفاظت کا مہینہ ہے۔ درندگی اور حیوانیت، سفاکیت اور بربریت کی خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور عالم انسانیت کو جگانے کا مہینہ ہے۔ خود کو اخلاق حسنہ اور صفات پسندیدہ سے آراستہ کرنے، اسلام کے آئین اور قرآنی احکام پر عمل پیرا ہونے کا مہینہ ہے۔ اپنی اصلاح اور دوسروں کی اصلاح کرنے اور لوگوں کو سنوارنے کا مہینہ ہے۔ آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اس سال محرم سے ہی اپنی اصلاح کریں گے اور اپنے باطن کو پاکیزہ بنا کر دوسروں کو ہدایت اور رہنمائی کا درس دیں گے۔ اپنے علاوہ دوسرے تمام انسانوں اور خدا کے بندوں کے لئے خدا کی بندگی کا بہترین نمونہ بن کر رہتی دنیا تک کے لئے مثال قائم کریں گے۔
ہماری دینی اور شرعی تہذیب اور ثقافت میں اولیائے الہی اورائمہ برحق اور محافظ دین و انسانیت سے محبت، دوستی، الفت اور لگاؤ کا ایک پروگرام عزاداری اور سوگواری ہے۔ یعنی ان ذوات مقدسہ، ان عظیم ہستیوں خصوصا حضرت امام حسین (ع) اور ائمہ معصومین (ع) اور آپ کے باوفا اور جاں نثار اصحاب و انصار کی شہادت کی یاد منانا، ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرنا، ان کی بے نظیر جاں نثاریوں اور فداکاریوں کا ذکر کرنا، ان کے سوگ میں ماتم کرنا اور غم منانا، جلوس نکالنا، رونا اور پیٹنا عزاداری ہے۔
نوحہ و ماتم، گریہ و زاری روز تخلیق اور خلقت آدم سے چلی آرہی ہے۔ یہ نیک افراد، باکردار لوگوں، اولیائے الہی اور انبیائے عظام کی سیرت ہے۔ رسولخدا (ص) اور ائمہ معصومین (ع) نے عزاداری کی ہے اور سوگ منایا ہے اور ہم چاہنے والوں اور دوستداروں کو بھی اس کا حکم دیا ہے۔ انسانیت کو عروج عطا کرنے والے، انسانیت کی آبرو بچانے والے، آدمیت کو سنوارنے والے محسن کی شہادت پر غم منانا اور فرش عزا بچانا ہمارا فرض ہے۔ یہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں رائج ہے اور قیامت تک عزاداری قائم رہے گی۔ دنیا میں حق و باطل کا فرق، اچھائی اور برائی میں تمییز جو باقی ہے وہ حسین بن علی (ع) کے دم سے ہے۔
لہذا کائنات کا گوشہ گوشہ، چپہ چپہ، انس و جان اور ملک مقرب سب عزاداری کرتے اور سوگ مناتے ہیں۔ ہر قوم ملت اپنے بزرگ، محسن اور رہنما کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام کرتی ہے اور اس کی یاد مناتی هے۔ یہ بات ہر انسان کے فہم و شعور میں لاشعوری طور پر پائی جاتی ہے اور اسے اچھا سمجھتی ہے۔ اسے اپنا فریضہ جانتی ہے اور اس کی ہدایات و رہنمائیوں کا ذکر کرتی کبھی جشن و سرور کی محفل سجاتی ہے تو کبھی عزا و سوگ کا ماحول قائم کرتی ہے۔ کچھ بھی ہو یہ رسم ہر قوم کے درمیان پائی جاتی ہے تو پھر ہم دنیا کے عظیم انسان اور محسن انسانیت کی شہادت پر غم کیوں نہ منائیں، اس عظیم نعمت کے فقدان پر نوحہ و ماتم کیوں نہ کریں۔
حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: اس قسم کی مجلسیں برپا کرو جس میں ہمارے امر (امامت) کو زندہ کیا جائے میں اس طرح کی مجلسوں کو دوست رکھتا ہوں۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خاندان رسالت کے تذکروں، ان کے اسماء اور خدمات، فضائل و مناقب سے انسانیت و آدمیت زندہ ہوتی ہے۔ انسانی اقدار و اصول کی پاسداری ہوتی ہے، ظلم و جور کی نقاب کشائی اور حق و صداقت کی جلوہ نمائی ہوتی ہے۔ حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں: جو کوئی کسی ایسی بزم میں بیٹھے جہاں ہمارے امر کا احیاء ہو تو اس کا دل اس دن زندہ رہے گا جس دن سارے دل مردہ ہوجائیں گے۔
خداوند عالم ہم سب کو امام حسین (ع) کا سچا اور مخلص عزادار قرار دے۔ آمین۔