Bernard Lewis

اسلامی انقلاب کے بارے میں امریکی پروفیسر برنارڈ لوئیس کا نقطہ نظر

برنارڈ لوئیس مشرق وسطی کے بارے میں معلومات رکھنے والا ایک یہودی نسل مشہور امرکی پروفیسر ہے کہ اس کی کتابیں اب تک دنیا کی 23/ زیانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے

برنارڈ لوئیس مشرق وسطی کے بارے میں معلومات رکھنے والا ایک یہودی نسل مشہور امرکی پروفیسر ہے کہ اس کی کتابیں اب تک دنیا کی 23/ زیانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے۔ اس کتاب "نفس اللہ" کے 214/ صفحہ پر عالم اسلام اور مغرب، ثقافتوں کی جنگ میں لکھتا ہے: جمہوری اسلامی کے قیام کے آغاز میں اسلامی آئین وفادار اور شناخت کی اعلان کرده اساس تھی۔ کلی طور پر خارجہ سیاست اور اسی طرح حکومت کی سیاست کا مقصد، حیات اسلام کی تجدید اور اسلامی عظمت اور اقتدار کو پھر سے ثابت کرنا تھا ، وہ بھی اسلامی انقلاب کے حدود کو بڑھاتے اور اعتقاد و اسلامی حقوق کو زندہ کرتے ہوئے۔ امریکہ ایک طاقت کے عنوان سے شاہ اور اس کے نوکروں کی حمایت کررہا تھا اور ایران کے داخلی امور میں مداخلت کررہا تھا۔ اور اس سے بھی اہم یہ کہ اس نے قدیم دشمن مغرب کی رہبری کررہا تھا اور اسے اس پروگرام کا سب سے پہلا اور بڑا دشمن سمجھ رہا تھا۔

اس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا اور امریکہ کے لئے صفت "شیطان بزرگ" کی وضاحت کرتے ہوئے جو امام خمینی (رح) نے دیا تھا، لکھا کہ امام خمینی امریکہ سپر پاور کی دشمنی سے خوفزدہ نہیں ہوئے لیکن امریکہ سے جس بات کا خطرہ تھا وہ امریکی زندگی کا گمراہ کرنے اور دھوکہ دینے والا طرز عمل تھا۔ مغربی گمراہی کا خطرہ جو ایران میں مغرب نوازی کہی جاتی ہے مدتوں سے ایرانی لکھنے والوں کا موضوع رہا ہے اور اسی سے متعلق بحث و گفتگو کرتے رہے ہیں۔

پروفیسر برنارڈ لوئیس اسی کتاب کے ص 177 پر اسلامی ممالک میں دینی تفکر تحریک کی جدید تحریکوں کی کامیابیوں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: مصر کے شدت پسند افراد صرف اور صرف اپنے حاکم کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے لیکن مصر کی حکومت نجات پاگئی اور اپنی سیاست کو آگے بڑھتی رہی۔ لیکن ایران کے مجاہدین نے بہت ساری کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی حکومت کو ختم کردیا اور اپنے ملک میں اس طرح کا وسیع پیمانہ پر انقلاب برپا کیا اور اسے کامیاب بنایا جس کی پوری دنیا میں اپنی آپ مثال ہے۔

اتریش کی محققین اور مصنفین کی تحقیقاتی انجمن، اتریش کی قومی وزارت دفاع، فوج کی خدمات کے بارے میں مشرق سے قریب اور شمال افریقہ ممالک میں افواج نامی کتاب میں 1995ء میں لکھتا ہے: ایران میں شاہی حکومت کے زوال اور امام خمینی (رح) کی حکومت کے قیام، اسلامی حیات کی تجدید کا وسیع پیمانہ پر آغاز ہوا جس کی امید نہیں تھی کہ اس نے بہت کم وقت میں اپنی سیاسی اور ثقافتی اثرات پوری دنیا میں اس طرح چھوڑے جس کی کبھی امید نہیں تھی۔ بیشک اس اسلامی حیات کی تجدید والی تحریک امام خمینی (رح) کی شخصیت سے اس درجہ لازم و ملزوم ہے کہ امام خمینی (رح) اسلامی بیداری کے نمونہ اور مظہر کے عنوان سے پہچانے گئے۔ امام خمینی (رح) کے سیاسی طلوع کے وقت دین اسلام سیاسی روداد کے لئے اہم ترین مقصد ایجاد کرنے والی طاقت ہوگیا۔

ای میل کریں