امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ

امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ

امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ

امام محمد باقرؑ کی مختصر سیرتِ طیّبہ

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادتِ با سعادت پہلی رجب المرجب سنّ ۵۷ ھ کو  یوم جمعہ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپؑ کا اسم گرامی محمد رکھا گیا، ابو جعفر آپؑ کی کنیت اور آپؑ کے القاب بہت سے تھے جن میں باقرالعلوم سب سے زیادہ مشہور لقب ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو اس لقب سے اس لئے ملقّب کیا گیا تھا کہ آپ نے علوم و معارف اورحقائق احکام و حکمت و لطائف کے ایسے خزانے ظاہر فرما دئیے جو لوگوں پر ظاہر و عیاں نہ تھے، آپؑ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپؑ والدہ ماجدہ اور والد گرامی دونوں کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ، حضرت علیؑ اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی جانب منسوب ہیں اس لئے کہ آپؑ کے والد محترم حضرت امام زین العابدین، جناب امام حسین علیہ السلام کے فرزند ہیں اور والدہ ماجدہ کی جانب سے آپؑ امام حسنؑ کی جانب منسوب ہیں۔ حضرت امام محمد باقرؑ کی عظمت ہر ایک عام و خاص کی زبان پر تھی آپؑ کے زمانہ میں جب بھی ہاشمی، علوی اور فاطمی خاندان کی شرافت، عظمت، کرامت وغیرہ کی بات ہوتی تھی تو صرف آپؑ کو ہی مذکورہ تمام صفات کا وارث سمجھا جاتا تھا۔ آپؑ کی عظمت کے بارے میں بس اتنا کافی ہے کہ رسول اکرمؐ اپنے ایک صحابی (جناب جابر بن عبداللہ انصاری) کے ذریعہ آپؑ کو سلام کہا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنے صحابی سے فرمایا: اے جابر تم زندہ رہو گے اور میرے بیٹے محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالبؑ سے ملاقات کرو گے جن کا نام توریت میں "باقر" ہے اور اس وقت میرا سلام انہیں پہونچانا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری کو خدا نے طولانی عمر عطا کی اور ایک زمانہ ایسا آیا کہ ایک دن جناب جابر بن عبداللہ انصاری امام زین العابدینؑ کے گھر تشریف لائے اور گھر میں انہیں پایا جبکہ اس وقت امام محمد باقرؑ کا بچپنا تھا جناب جابر بن عبد اللہ انصاری نے  ان سے کہا میرے پاس آؤ، امام محمد باقرؑ قریب آئے تو انہوں نے کہا تھوڑا آگے چل کے جاؤ امام محمد باقرؑ چلے جب واپس آئے تو جناب جابر بن عبداللہ انصاری نے کہا: خدائے کعبہ کی قسم یہ بچہ پیغمبر اکرمؐ کی مکمل عکاسی کر رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے امام زین العابدینؑ سے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ میرے بیٹے محمدِ باقر ہیں جو میرے بعد امام ہوں گے۔ یہ سنتے ہی جناب جابر بن عبداللہ انصاری کھڑے ہو گئے اور امام محمد باقرؑ کے پاؤں کا بوسہ لینے کے بعد کہا:میں آپؑ پر قربان ہو جاؤں اے فرزند پیغمبرؐ، آپؑ کو پیغمبر اکرمؐ نے سلام بھیجا یہ سنتے ہی امام محمد باقرؑ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا: میرا سلام ہو میرے جد امجد پر جب تک زمین و آسمان قائم ہیں اور آپ پر بھی اے جابر کہ آپ نے ان کا سلام مجھے پہونچایا ہے۔ (امالی شیخ صدوق، ص۲۱۳، چاپ سنگی)

 امام باقرؑ کا علم

امام محمد باقرؑ کی سیرت کا ایک پہلو آپؑ کے علم میں پوشیدہ ہے آپؑ کے علم کا سرچشمہ بھی دیگر ائمہ اطہارؑ کی طرح وحیِ پروردگار تھا لہذا آپؑ نے بھی بشری مکتب میں کہیں کچھ نہیں سیکھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جناب جابر بن عبداللہ انصاری اپنی اس عمر میں بھی امام محمد باقرؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے کچھ سیکھ کر جاتے اور ہمیشہ عرض کیا کرتے تھے کہ اے باقر العلوم میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ بچپنے میں ہی خدائی علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ( علل الشرایع شیخ صدوق، ج۱، ص۲۲۲، چاپ قم)۔

عبداللہ بن عطاء مکی کہتے ہیں: میں نے کسی کے نزدیک دانشوروں و شاگردوں کو اتنا حقیر نہیں پایا جتنا امام محمد باقرؑ کے نزدیک پایا۔ حکم بن عتَیبہ امام محمد باقرؑ کی خدمت میں ایک چھوٹے بچہ کی طرح علم و دانش کے حصول کے لئے آتے تھے جبکہ وہ اپنے زمانے میں لوگوں کے نزدیک بہت بڑی علمی شخصیت کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)۔ امام محمد باقرؑ کی علمی شخصیت کی حقیقت یہ ہے کہ جابر بن یزید جعفی جب آپؑ سے کوئی روایت نقل کرتے تو کہا کرتے کہ وصیّ اوصیاء، وارث علوم انبیاء محمد بن علی بن علی بن الحسینؑ سے میں نے یہ روایت نقل کی ہے۔ ( ارشاد شیخ مفید، ص۲۴۶، چاپ آخوندی)

کسی شخص نے عبداللہ بن عمر سے کوئی مسئلہ پوچھا تو وہ جواب نہ دے پائے انہوں نے سوال کرنے والے سے کہا کہ اس بچہ سے پوچھو اور مجھے بھی جواب کے بارے میں مطلع کر دینا کیونکہ اس کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے اس شخص نے امامؑ سے پوچھا اور امامؑ نے اسے مطمئن کر دیا اور جب اس نے عبداللہ عمر کے سامنے آکر بیان کیا تو انہوں نے کہا: یہ ایسا خاندان ہے جس کا علم خدادادی ہے۔ (مناقب ابن شہر آشوب، ج۳، ص۳۲۹، چاپ نجف)

ابو بصیر کہتے ہیں: میں امام محمد باقرؑ کے ساتھ مسجد مدینہ میں داخل ہوا تو لوگوں کی چہل پہل تھی امامؑ نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کہ کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں؟ میں نے جس سے بھی پوچھا کہ کیا ابو جعفر کو دیکھ رہے ہو تو میں نے منفی جواب سنا جبکہ امامؑ میرے پاس کھڑے تھے اسی اثناء میں ابو ہارون نامی امامؑ کے ایک حقیقی دوست بھی مسجد میں داخل ہوئے جو نابینا تھے، امامؑ نے فرمایا: ان سے بھی پوچھو، میں نے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ کیا وہ تمہارے ساتھ کھڑے نہیں ہیں؟ میں نے کہا: آپ تو نابینا ہیں پھر آپ کیسے سمجھے؟ انہوں نے جواب دیا، میں کیسے نہ سمجھ پاتا جبکہ ایک چمکتا ہوا نور نظر آ رہا ہے۔ (بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۴۷)

امام محمد باقرؑ کا اخلاق

امام محمد باقرؑ کی سیرت کا ایک اہم پہلو آپؑ کے اخلاق میں پوشیدہ ہے موجودہ دور میں تمام معاشروں میں جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے وہ اخلاقِ محمد و آل محمدؐ کی ہے، شام کا رہنے والا ایک شخص مدینہ میں سکونت پذیر تھا اور وہ امامؑ کے گھر اکثر تشریف لاتا تھا اور ان سے یہ کہتا کہ اس زمین پر میرے دل میں آپ سے زیادہ کسی کے بارے میں کینہ و بغض نہیں پایا جاتا اور آپ اور آپ کے خاندان سے زیادہ کسی کا دشمن بھی نہیں ہوں! اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا، پیغمبرؐ اور امیر المومنین کی اطاعت صرف آپ کی دشمنی میں پوشیدہ ہے اور اگر آپ مشاہدہ کر رہو کہ میں آپ کے گھر آتا جاتا ہوں تو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ آپ بہت بڑے ادیب، مقرر اور اچھے بیان کے مالک ہیں۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود امامؑ اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتے کچھ عرصہ گزرا اور وہ شامی شخص بیمار ہو گیا اور جب اس نے محسوس کیا کہ اب موت آنے ہی والی ہے تو اس نے وصیت کی کہ ابو جعفر، امام محمد باقرؑ میری نماز جنازہ پڑھائیں۔ جب وہاں کے رہنے والوں نے اسے مردہ پایا تو امامؑ کو پیغام پہونچا کہ اس شامی شخص کی موت واقع ہو چکی ہے اور اس نے وصیت کی ہے کہ آپؑ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ اس وقت امامؑ نماز کی تعقیبات میں مصروف تھے اور ان کا معمول تھا کہ وہ نماز صبح کے بعد ہمیشہ دعا و راز و نیاز کرتے امامؑ نے پیغام سنے کے بعد فرمایا: وہ ابھی زندہ ہے اور میرے آنے تک انتظار کرنا۔ امامؑ نے دو رکعت نماز پڑھ کر سجدہ کی حالت میں خدا سے راز و نیاز کیا اور اس کے بعد اس شامی شخص کے گھر تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اسے آواز دی اور اس نے جواب دیا تو وہ فوراً امامؑ کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو امامؑ نے اسے دیوار کے سپارے بٹھایا اور شربت طلب کر کے اس کے منہ میں ڈالا اور اس کے رشتہ داروں سے فرمایا:اسے ٹھنڈا کھانا کھلایا جائے کچھ عرصہ کے بعد اس شامی شخص کو شفا ملی اور وہ امامؑ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ اس میں مکمل تبدیلی آ چکی تھی اور اس نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑ خدا کی جانب سے لوگوں پر حجت ہو۔ (امالی شیخ طوسی، ص۲۶۱، چاپ سنگی)

وقت کے اموی بادشاہ

امام چاہے سماج میں ہو یا وہ گوشہ نشینی میں رہ کر دینی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوشاں ہو وہ دونوں صورتوں میں امام ہوتا ہے اور اس کی امامت میں کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے اس کے ماننے والے ہوں یا نہ ہوں کیونکہ امامت، رسالت کی طرح ایسا خدائی منصب ہے جسے لوگوں کے انتخاب پر نہیں چھوڑا گیا اسی وجہ سے غاصبین اور ظالمین ہمیشہ امام محمد باقرؑ کے عظیم الشان مقام سے جلتے تھے اور امامت وخلافت کو غصب کرنے کی تلاش میں لگے رہتے اور اس راستہ میں وہ ہر قسم کا ظلم و ستم برپا کرنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن امامؑ کا معنوی مقام اس قدر جذاب تھا کہ دشمن و غاصب خود مرعوب ہو جاتے اور آپؑ کے سامنے تواضع کرنے لگتے۔ ایک مرتبہ آپؑ کے زمانہ کا ایک بادشاہ یعنی ھشام بن عبدالملک حج کے لئے آیا تھا اور امام باقر اور امام جعفر صادق علیھما السلام بھی حج بجا لانے گئے تھے انہی ایام میں ایک دن حضرت امام جعفر صادقؑ نے حج کے بہٹ بڑے اجتماع میں خطاب فرماتے ہوئے یہ فرمایا:خدا کا شکر جس نے محمدؐ کو سچا نبی بنا کر بھیجا اور ہمیں ان کی وجہ سے احترام ملا لہذا کائنات میں چنے گئے افراد ہم ہیں اور زمین میں خدا کے جانشین بھی ہم ہی ہیں، کامیاب وہی شخص ہے جو ہمارا پیروکار ہے اور بدبخت اس کی نصیب ہو گی جو ہماری مخالفت کرتا ہے۔ حج کے بعد امام صادقؑ اکثر یہ فرمایا کرتے کہ میری گفتگو کی خبر ھشام تک پہونچی لیکن اس کے اندر وہاں جرأت پیدا نہ ہوئی اور جب وہ شام لوٹا اور ہم بھی مدینہ لوٹ گئے تو اس نے حاکم مدینہ کو دیا کہ وہ مجھے اور میرے والد ماجد کو شام بھیجے۔ جب ہم شام پہونچے تو اس نے تین دن تک اپنے دربار میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی چوتھے دن جب ہم اس کے دربار میں داخل ہوئے تو وہ تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے درباری اس کے سامنے کھڑے ہو کر تیر اندازی وغیرہ میں مصروف تھے۔ امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں ھشام نے میرے والد ماجد کو بلایا اور کہا: اپنے قبیلہ کے بزرگوں کے ساتھ تیر اندازی کرو انہوں نے انکار کیا کہ میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں بہرحال اس کے اصرار پر میرے بابا نے مسلسل نو تیر چلائے اور سب نشانہ پر لگے، حاضرین کی فریاد بلند ہو گئی، اور ھشام نے بابا سے کہا آپ تو کہہ رہے ہو کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن اس کے باوجود آپ نے تمام تیر ھدف نشانہ پر لگائے ہیں اس واقعہ کے بعد اس نے میرے بابا کے قتل کا منصوبہ بنا لیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوا۔ مختصر طور پر اگر دیکھا جائے تو امام محمد باقرؑ ۵۷ ھ میں معاویہ بن ابی سفیان کے دور میں پیدا ہوئے۔ ۶۰ ھ میں یزید بن معاویہ بادشاہ وقت رہا، ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزید اور مروان بن حکم بادشاہ رہے  ۶۵ ھ تک عبدالملک بن مروان خلیفہ وقت رہا پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی، اسی نے ۹۵ ھ میں آپؑ کے والد ماجد کو شھید کرا دیا، اسی ۹۵ ھ سے آپ کی امامت کا آغاز ہوا، اور ۱۱۴ ھ تک آپؑ فرائض امامت ادا فرماتے رہے، لہذا ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک ،عمربن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اورہشام بن عبدالملک کو آپؑ کے زمانہ کے بادشاہوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

امام محمد باقرؑ کے اصحاب

امام محمد باقرؑ کے مکتب میں بہت سے ممتاز شاگردوں نے تربیت و پرورش پائی جن میں بعض کی جانب اشارہ کیا رہا ہے:

 ۱۔ ابان بن تغلب: ابان بن تغلب نے تین اماموں کے زمانہ کو درک کیا امام زین العابدین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام۔ ابان اپنے زمانہ کی علمی شخصیات میں سے تھے، تفسیر، حدیث، فقہ، قرائت اور لغت پر انہیں کافی عبور حاصل تھا ان کے علم کے بارے میں امام محمد باقرؑ نے فرمایا: مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو فتوی دو کیونکہ مجھے پسند ہے کہ ہمارے شیعوں کے درمیان لوگ تجھ جیسے افراد کو دیکھا جائے۔(جامع الروایات، ج۱، ص۹)

۲۔ زرارہ: شیعہ علماء امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھما السلام کے شاگردوں میں چھ افراد کو دوسروں سے برتر سمجھتے ہیں اور زرارہ ان میں سے ایک ہیں، امام جعفر صادقؑ فرماتے تھے: اگر برید بن معاویہ، ابو بصیر، محمد بن مسلم اور زرارہ نہ ہوتے تو علوم پیغمبرؐ کو مٹا دیا جاتا وہ خدا کے حلال و حرام کے امین ہیں۔

۳۔ کمیت اسدی: بہت بڑے شاعر تھے اور انہوں نے اشعار کی وادی میں ہمیشہ اہل بیت اطہارؑ کا دفاع کیا ان کے اشعار کی حقیقت یہ تھی کہ ہمیشہ اموی خلفاء کی جانب سے انہیں قتل کی دھمکیاں ملتی تھیں، حقائق بیان کرنا اور اہل بیتؑ کا دفاع کرنا اس زمانہ میں اس قدر مشکل تھا کہ صرف کچھ ہی بہادروں میں اس طرح کا قدم اٹھانے کی جراؐت پیدا ہوتی تھی لہذا جناب کمیت نے دھمکیوں پر توجہ نہ دی اور اموی حکام کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کردیا۔ ( سفینۃ البحار، ج۲، ص۴۹۵)

۴۔ محمد بن مسلم: اہل بیتؑ کے فقیہ اور امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیھم السلام کے سچے صحابیوں میں سے تھے، ان کا تعلق کوفہ سے تھا اور وہ امام محمد باقرؑ کے علم بیکراں سے فیضیاب ہونے کے لئے مدینہ تشریف لائے اور وہاں چار سال سکونت اختیار کی۔ عبداللہ بن ابی یعفور کہتے ہیں: میں نے امام صادقؑ سے عرض کیا کہ بعض اوقات مجھے کچھ سوالوں کے جوابات دریافت کرنا ہوتے ہیں اور آپؑ تک بھی میری دسترسی نہیں ہوتی ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟ امامؑ نے محمد بن مسلم کو متعارف کرایا اور فرمایا: ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ (رجال کشی، ص۱۶۲، چاپ دانشگاہ مشھد)

امام محمد باقرؑ کے بعض علمی فرمودات

آپؑ نے فرمایا: جھوٹ ایمان کی خرابی ہے۔

۔ مؤمن کی علامت یہ ہے کہ وہ بزدل، لالچی اور بخیل نہیں ہوتا۔

۔ تکبر بہت بری چیز ہے، یہ جس قدر انسان میں پیدا ہو گا اسی قدر اس کی عقل گھٹے گی۔ ۔کمینے شخص کا حربہ گالیاں بکنا ہے۔

۔ ایک عالم کی موت کو ابلیس نوے عابدوں کے مرنے سے بہتر سمجھتا ہے۔ ایک ہزار عابد سے وہ ایک عالم بہتر ہے جو اپنے علم سے فائدہ پہنچا رہا ہو۔

۔ میرے ماننے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت کریں۔ آنسوؤں کی بڑی قیمت ہے، رونے والا بخشا جاتا ہے اورجس رخسار پر آنسو جاری ہوں وہ ذلیل نہیں ہوتا۔ سستی اور زیادہ تیزی برائیوں کی کنجی ہے۔

۔ اپنے مسلمان بھائی کو دوست رکھو اور ہر وہ چیز جو خود پسند کرتے ہو اس کے لئے پسند کرو اور جس چیز کو تم ناپسند رکھتے ہو اسے اس کے لئے بھی ناپسند رکھو۔

۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے گھر کسی ضرورت کے پیش نظر یا دیدار کی غرض سے آئے اور وہ گھر میں موجود ہونے کے باوجود اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے اور خود اس کے دیدار کے لئے گھر سے باہر نہ نکلے تو خدا کی لعنت اس پر برستی رہے گی یہاں تک وہ ایک دوسرے سے ملاقات نہ کر لیں۔

۔ بدترین عیب یہ ہے کہ انسان کو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہ دے، اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی نظر آنے لگے یعنی اپنے بڑے گناہ کی پرواہ نہ ہو، اوردوسروں کے چھوٹے چھوٹے عیب اسے بڑے نظر آئیں اورخود عمل نہ کرتا ہو صرف دوسروں کو تعلیم دینے پر زور دے۔  

امام محمد باقرؑ کی شہادت

امام باقرؑ 7 ذی الحجۃ سن 114 ہجری کو شہید کر دئے گئے آپؑ کی شہادت کے سلسلے میں بہت سے اقوال تاریخ کے اوراق میں قید ہوئے ہيں۔ اس سلسلے میں متعدد تاریخی اقوال نقل ہوئے ہیں کہ امام محمد باقرؑ کو کس شخص یا کن اشخاص نے قتل کیا؟ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ ہشام بن عبد الملک نے خود انہیں قتل کرایا ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ آپ کا قاتل ابراہیم بن ولید بن عبد الملک بن مروان ہے جس نے امامؑ کو مسموم کیا۔ بعض روایات میں حتی کہ زید بن حسن کو آپؑ کے قاتل کے طور پر پہچنوایا گیا ہے جو عرصہ دراز سے امامؑ کا کینہ اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ امام محمد باقرؑ نے ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں جام شہادت نوش کیا۔ کیونکہ ہشام کی خلافت سن 105 سے سن 125 ہجری تک جاری رہی ہے اور بعض مؤرخین نے امامؑ کی شہادت کے سال میں اختلاف کرتے ہوئے آپ کے سال شہادت کو سن 118 ہجری قرار دیا ہے۔ آپؑ کو اپنے والد ماجد کی طرح زہر دیا گیا، شھادت کی رات آپؑ نے اپنے بیٹے امام جعفر صادقؑ سے فرمایا: بیٹا آج رات میں اس دار فانی کو لبیک کہوں گا میں نے ابھی ابھی اپنے بابا کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے مجھے مزیدار شربت پلایا اور انہوں نے مجھے دیدار حق اور جہانِ اخروی کی بشارت دی ہے۔ امامؑ کا یہ خواب سچ نکلا اور اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ کے لئے داغدار کر گیا دوسرے دن آپؑ کے جسم مبارک کو جنت البقیع میں اپنے بابا امام زین العابدین اور امام حسن مجتبی علیھما السلام کے قریب سپردِ خاک کیا گیا۔ ہم تمام چاہنے والوں اور شیعوں کا ان پر سلام ہو۔

منبع: ماخوذ از کتاب زند گینامہ چھاردہ معصوم علیھم السلام، تالیف آیۃ اللہ سید محسن خرازی۔

              

ای میل کریں