اسرائیل کے خفیہ عقوبت خانوں میں کیا ہو رہا ہے؟
وہ دو بچے ’محمد‘ اور ’بشیر ید اللہ‘ نام کے تھے۔ ان بچوں کو دو الگ الگ ایسے خلیوں میں رکھا گیا جن میں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ روشنی، اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور زد و کوب کیا جاتا تھا حتیٰ بیت الخلاء تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے گھر والوں کو مار دئے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ جو تمام ممالک کے قید خانوں پر نگرانی رکھتی ہے نے ۲۰۰۹ میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خفیہ عقوبت خوانوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہ ملنے پر تنقید کی۔ داستان کچھ یوں تھی کہ اس تنظیم کے زیر نگرانی کام کرنے والی “تشدد کے خلاف کمیٹی” نے اسرائیلی حکومت سے اس کے تمام قید خانوں کا دورہ کرنے کی اجازت مانگی لیکن اسرائیل نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
اسرائیلی حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی اس کمیٹی کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی کہ بعض عقوبت خانے فی الحال خالی ہیں لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی جنگ کے دوران کچھ قیدی ان میں موجود تھے۔ لیکن اس کمیٹی کو اجازت نہ ملنے پر خدشہ لاحق ہوا کہ دال میں کچھ کالا کالا ہے۔
یہ قید خانے در حقیقت پچھلے دور میں عربوں اور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے بنائے گئے تھے اور ان میں مسلمانوں پر ایسا تشدد کیا جاتا تھا کہ ۱۹۹۹ میں حتیٰ اسرائیلی سپرئم کورٹ اس تشدد کو بند کروانے پر مجبور ہوا۔
خفیہ قید خانے
پہلی بار “ہاموکوڈ” نامی انسانی حقوق تنظیم نے اس وقت اسرائیل میں ان عقوبت خانوں کا سوراغ لگایا جب دو چچازاد فلسطینی بچے فلسطین میں گرفتار کر لئے گئے اور ان کا پتہ کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ کافی تلاش و جستجو اور اسرائیلی عہدہ داروں پر کافی دباو ڈالے جانے کے بعد معلوم ہوا کہ ان دو بچوں کو ایک خفیہ جگہ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس قید خانے کا صحیح ایڈرس نہیں مل سکا۔ صرف اتنا بتایا گیا کہ کسی ایسی خفیہ جگہ پر قید ہیں وہ یروشلم سے سوکلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔
ہامو کوڈ کی سربراہ “ڈالیا کرشٹائن” کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت اس قید خانے کی طرف متوجہ ہوئے جب دوسری جیلیں بھر جانے کی وجہ سے کچھ فلسطینی قیدیوں کو غلطی سے ان خفیہ عقوبت خانوں کی طرف لے جایا گیا۔ محترمہ کرشٹائن ان قیدخانوں کے بارے میں کہتی ہیں: ان قید خانوں میں Guantanamo جیل سے زیادہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اس لیے کہ ان قید خانوں کا کبھی کسی نے جائزہ نہیں لیا۔
رپورٹ کے مطابق وہ دو بچے ’محمد‘ اور ’بشیر ید اللہ‘ نام کے تھے۔ ان بچوں کو دو الگ الگ ایسے خلیوں میں رکھا گیا جن میں نہ کوئی کھڑکی تھی اور نہ روشنی، اور انہیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور زد و کوب کیا جاتا تھا حتیٰ بیت الخلاء تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ ان کے گھر والوں کو مار دئے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حامی
اسرائیل ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ ’ایشیی مناخیم‘ کا اس تشدد کے بارے میں کہنا ہے: ہم نے متعدد بار اقوام متحدہ میں رپورٹ دی ہے کہ ان قید خانوں میں غیرقانونی اور بےدردی سے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری آواز کبھی سنی نہیں گئی اس لیے کہ اسرائیل کسی بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی سپرپاور طاقت امریکہ اس کی حامی ہے۔ لہذا اگر اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی چیز منظور کی جاتی ہے تو امریکہ اس کو آسانی سے ویٹو کر دیتا ہے۔