میں انقلابی ہوں
ایران اور جاپان کے درمیان سفارتی تعلقات کی تاریخ نوے سال پر محیط ہے۔ پہلی بار 1929ء میں ایران اور جاپان کے درمیان باہمی تعلقات کا معاہدہ ہوا تھا۔ ان نوے سالوں میں ایران جاپان تعلقات کبھی کشیدہ نہیں ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب امریکہ کے جاپان سے تعلقات بحال ہوئے اور بعد ازاں 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور امریکہ نے اس انقلاب کے خلاف تمام دنیا کو ایران مخالف صفحے پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو جاپان نے اس وقت بھی امریکہ کا اس طرح ساتھ نہیں دیا, جس طرح بعض اسلامی ممالک من جملہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر وغیرہ نے دیا تھا۔ جاپان ایک صنعتی ملک ہے اور اس وقت تیل درآمد کرنے والے ممالک میں امریکہ اور چین کے بعد دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جاپان ایران کے تین بڑے تیل کے خریداروں میں سے ایک ہے۔ امریکہ نے جب پہلی بار ایران کے خلاف پابندیاں عائد کیں تو اس وقت جاپان نے امریکہ کا ساتھ نہ دیا اور اس کی طرف سے تیل کی خریداری کا سلسلہ جاری رہا۔ جاپان ماضی میں ایران سے اوسطاً دو لاکھ بیرل سے زائد تیل کا یومیہ خریدار رہا ہے، جو کہ کم و بیش اس وقت بھی جاری ہے۔
آج بھی چین و ہندوستان کی طرح جاپان بھی تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے۔ ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ گذشتہ چالیس برسوں میں جاپان کے کسی وزیراعظم کا یہ پہلا دورہ ایران ہے اور جس وزیر خارجہ نے 1978ء میں ایران کا دورہ کیا تھا، وہ جاپان کے موجودہ وزیراعظم کے والد تھے۔ جاپان کے وزیراعظم آبے شنزو کے دورے سے پہلے عالمی میڈیا میں شوروغل تھا کہ جاپانی وزیراعظم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرامپ کا ثالثی کا پیغام لے کر آ رہے ہین، سب کی نظریں اس پر مرکوز تھیں کہ امریکہ نے جاپان جیسے ایران کے سب سے اہم تیل کے خریدار اور دنیا میں صنعتی شعبے کے مضبوط ترین ملک کو ثالث کا کردار دیکر ایران کو اپنے جال میں پھنسا دیا ہے، کیونکہ اگر ایران نے جاپان کی ثالثی کو مسترد کر دیا تو ایران علاقے کے اہم ملک جاپان کی ہمدردیوں، تعاون اور دو لاکھ بیرل یومیہ تیل کی برآمد سے محروم ہو جائے گا۔
آبے شینزو کی رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات سے پہلے بعض ایرانی حکام میں بھی سراسمیگی پائی جاتی تھی کہ ایران پہلے ہی اقتصادی مشکلات کا شکار ہے اور اگر ایران نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تو ایران کا اقتصادی نطام مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔ جاپانی وزیراعظم جب اپنے اعلیٰ سطی وفد کے ساتھ ایران کے سپریم لیڈر کے پاس پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا اور ثالثی کی خواہش کا اظہار کیا تو رہبر انقلاب اسلامی نے جو دو ٹوک اور قاطعیت پر مبنی موقف دیا، اس نے امام خمینی کی یاد تازہ کر دی۔ اسلام ٹائمز کی رپوٹ کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ایران کو امریکہ پر ذرہ برابر اعتماد نہین، میں ذاتی طور پر ٹرامپ کو پیغامات کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا۔ امریکہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ حکومت کی تبدیلی نہیں، کیونکہ اگر وہ ایسا کرنا بھی چاہیں تو ایسا کرنا ان کے بس کی بات نہیں، ہم اگر ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے تو امریکہ ہمیں نہیں روک سکتا تھا۔
ہم خدا کے فضل سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بغیر اور پابندیوں کے باوجود ترقی کریں گے۔ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا تجربہ ہرگز دہرایا نہیں جائے گا، کیونکہ کوئی بھی خود مختار اور عاقل قوم دبائو کے تحت ہرگز مذاکرات نہیں کرسکتی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی پیشکشوں کو ٹھکرا کر دنیا کے دیگر ممالک کو بھی پغام دیا ہے کہ امریکہ ناقابل اعتماد ہے، وہ دبائو اور تسلط کے ذریعے مذاکرات کے نام پر اپنی بات ٹھونستا ہے۔ کاش دنیا کے دیگر مسلمان حکمران بھی امریکی ماہیت کا ادراک کرکے اپنے عوام اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے امریکہ کے مقابلے میں اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرتے تو آج ہر مسلمان حکمران رہبر معظم حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرح امریکی دھمکیوں اور پیشکشوں کو ٹھکرا رہا ہوتا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جاپانی وزیراعظم کو دو ٹوک جواب دے کر اپنی اس بات کو ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ میں "ڈپلومیٹ نہیں انقلابی ہوں۔"