امریکہ کی نظر میں ایران کا جرم کیا ہے؟
تحریر: علی احمدی
1979ء میں ایران میں امام خمینی رح کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خود کو دنیا کی واحد سپر طاقت سمجھنے والے امریکہ اور ایران میں دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ البتہ اس دشمنی کا آغاز کرنے والا بھی امریکہ ہی تھا کیونکہ اس نے ایک تو اسلامی انقلاب کے نتیجے میں تشکیل پانے والے نئے اسلامی جمہوریہ ایران کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جبکہ دوسری طرف انقلابی حکومت کے خاتمے کیلئے مختلف قسم کی سازشیں بھی شروع کر دیں۔ تہران میں امریکی سفارتخانہ ایران میں انقلابی حکومت کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں اور سازشوں کا مرکز بن چکا تھا۔ اس حقیقت کو بھانپتے ہوئے انقلابی جوانوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر کے تمام امریکی عملہ گرفتار کر لیا۔ یہاں سے ایران امریکہ تناو اپنے عروج پر پہنچا اور اس کے بعد امریکہ کے تکبر اور غرور آمیز رویے کے باعث اس تناو میں دن بدن مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ سیاست کی دنیا میں اسلام جیسے عقل و منطق پر مبنی دین کی مداخلت سے شدید ہراساں ہے۔ وہ کسی ایسے سیاسی نظام کو قبول نہیں کر سکتا جس کی بنیادیں حقیقی اسلامی تعلیمات پر استوار ہوں کیونکہ ایسی صورت میں اسے اپنی فرعونیت اور ظالمانہ تسلط خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
منافقت کا یہ عالم ہے کہ امریکہ ہر گز ایران سے دشمنی کی اصلی وجہ عیاں نہیں کرتا کیونکہ یوں دنیا بھر میں اربوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمانوں کی نظر میں ذلیل و حقیر ہو جاتا ہے۔ لہذا امام خمینی رح کے بقول یہ شیطان بزرگ اپنی دشمنی کے حقیقی محرکات کو بھی چکنے چپڑے اور خوبصورت لفافوں میں بند کر کے ظاہر کرتا ہے۔ امریکہ کا دعوی ہے کہ ایران خطے اور دنیا میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول میں کوشاں ہے، وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے اور مختصر یہ کہ جمہوریت اور انسانیت کا دشمن ہے۔ لہذا چونکہ ہم (امریکی حکومت) جمہوریت اور انسانی اقدار کا گہوارہ ہیں اور دنیا بھر میں انسانی اور جمہوری اقدار کے تحفظ کی قسم کھا چکے ہیں لہذا ایران ہمارا نمبر ایک دشمن ہے۔ لیکن ایران سے دشمنی میں امریکہ کے حقیقی محرکات وقتاً فوقتاً عیاں ہوتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں معروف امریکہ ماہر سماجیات اور سیاسیات پروفیسر نوام چامسکی نے کہا ہے کہ ایران سے امریکہ کی دشمنی اور عداوت کی حقیقی وجہ امریکہ کے خلاف ایران کی کامیاب مزاحمت ہے۔
انہوں نے معروف امریکی مجلے “In these times” میں انٹرویو دیتے ہوئے ایران کے خلاف امریکہ کے حالیہ اشتعال انگیز اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ امریکہ ہمیشہ سے اپنے مقابلے میں دیگر ممالک کی "کامیاب مزاحمت" کے خاتمے کا خواہاں تھا اور ہے۔ ایران پر دباو بھی اس عالمی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت دنیا کے سامنے امریکی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد دنیا کے تمام ممالک کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ انہی محرکات کے تحت امریکہ نے 60 برس تک کیوبا سے دشمنی کی اور اسے شدید دباو کا نشانہ بنایا ہے۔ نوام چامسکی نے لکھا کہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر آج تک ایران کا واحد جرم امریکہ کے مقابلے میں "کامیاب مزاحمت" رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب انقلاب سے پہلے رضا شاہ ایران کا فرمانروا تھا اور وہ امریکہ کا مکمل مطیع تھا تو اس وقت ایران، سعودی عرب اور اسرائیل کے ہمراہ مغربی ایشیا پر امریکی تسلط برقرار رکھنے میں اہم کردار کا حامل تھا۔ لیکن رضا شاہ کی سرنگونی کے بعد امریکہ نے ایران کے خلاف تھونپی گئی جنگ میں عراق کے صدر صدام حسین کی کھلی حمایت کی اور عراق کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی چشم پوشی کی۔
نوام چامسکی لکھتے ہیں کہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد امریکی صدر جرج بش جونیئر کے دور میں امریکی وزارت دفاع پینٹاگون اور وزارت انرجی نے عراقی انجینئرز کو امریکہ بلایا تاکہ انہیں جدید ترین اسلحہ تیار کرنے کی ٹریننگ دے سکے۔ اس کے بعد ایران کے خلاف شدید دباو کا آغاز ہوا اور سائبر حملے بھی شروع ہو گئے۔ امریکہ ہمیشہ ایران کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتا ہے جبکہ خود امریکی انٹیلی جنس ذرائع کی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ "ایران کی دفاعی پالیسی دفاع پر مبنی ہے اور اس میں بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے سفارتی طریقہ کار اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔" ایران اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹرنس ایجاد کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ نوام چامسکی نے مزید لکھا کہ امریکہ کے انٹیلی جنس اداروں نے 2007ء اور 2012ء میں واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ لہذا خطے میں کھلی دہشت گردی کرنے والی حکومتوں اور گروہوں کے مقابلے میں ڈٹرنس پر مبنی پالیسی بہترین انتخاب ہے۔ چامسکی نے امریکہ کے متضاد رویوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ سابق ایرانی فرمانروا رضا شاہ کے زمانے میں کچھ حد تک جوہری ہتھیار تیار کرنے سے متعلق خدشات موجود تھے۔"