خودساختہ حکام

خودساختہ حکام

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:
اگر ایک انسان، اگر ایک شاہ اور ایک حکومت کا سربراہ آراستہ اور خودسازی کئی ہوں اور ایک اچھا انسان ہوگا تو اس کے اطراف میں موجود سارے لوگ صحیح ہوں گے اور ان کی سیرت و کردار ان کے ماتحت افراد میں اثر انداز ہوگی

امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں

خودساختہ حکام

ہر ملک میں حاکموں کا کردار اول ہوتا ہے۔ معاشرہ میں ان کی رفتار و گفتار لاشعور طور پر موثر ہوتی ہے۔ جہاں کے رہبر اور حکام اپنی خودسازی کئے ہوں گے وہاں کے عوام اور باشندہ عیش و عشرت اور امن و سکون سے ہوں گے، لیکن جس ملک کے حکام، سلاطین اور ذمہ دار افراد لٹیرے ہوں گے، ظالم و جابر ہوں گے یا ڈاکووں، لیٹروں کی حمایت کریں گے تو فطرتا وہاں کے لوگ چوری، ڈکیتی، خیانت و غداری اور لوٹ مار کے عادی ہوں گے اور پوری زندگی انہی بادشاہوں اور حاکموں کے صفات کے حامل ہوں گے۔

امام خمینی (رح) فرماتے هیں:

اگر ایک انسان، اگر ایک شاہ اور ایک حکومت کا سربراہ آراستہ اور خودسازی کئی ہوں اور ایک اچھا انسان ہوگا تو اس کے اطراف میں موجود سارے لوگ صحیح ہوں گے اور ان کی سیرت و کردار ان کے ماتحت افراد میں اثر انداز ہوگی۔ اگر ایک وقت وہ دیکیں گے کہ 20/ سال کسی ملک میں ایک عادل حاکم ہے اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کی مکمل رعایت کرتا ہے تو ایک عادل حکومت بن جائے گی۔ (صحیفہ امام، ج 7، ص 285)

ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:

اگر کسی ملک میں مہذب اور آراستہ انسان ہوں وہاں کے سارے کام بہتر ہوں گے۔ مہذب اور تزکیہ کیا ہوا انسان ملک کو ہر پہلو سے سعادت اور خوش نصیبی سے ہمکنار کرتا ہے۔ جو انسان خدا پر ایمان رکھتا ہے، جو انسان ذمہ دار اور پابند ہے اور ایک پاکیزہ انسان ہے وہ ظالم کو اس کے ظلم سے روکے گا۔ (صحیفہ امام، ج 7، ص 531)

ہم جس دنیا میں اس وقت زندگی گذار رہے ہیں تو بخوبی واضح ہے کہ جس حکومت کے حکام نسبتا صالح اور نیک ہیں وہاں کے لوگ بھی نسبتا نیک اور صالح ہیں لیکن جن ممالک میں مسلسل ظلم و جور ہورہا ہے، جہاں لوٹ مار اور چوری ڈکیتی ہورہی ہے۔ جہاں ہر طرف فساد کا بازار گرم ہے۔ جہاں ہر طرح گناہ اور منکرات کی کھلم کھلا آزادی اور چھوٹ ہے۔ جہاں پر برائیاں رائج ہیں، فتنہ و فساد کے مراکز ہیں، جہاں کسی کی حرمت کا پاس و لحاظ نہیں ہے، کسی کی ناموس محفوظ نہیں ہے، ہر ایک کی عزت خطرہ میں ہے وہاں کے لوگ بای اپنے بادشاہوں کے دین کو اختیار کرلیں گے، اپنے حکام کے طرز عمل کو اپنالیں گے۔

اس جگہ برائی برائی نہیں لگے گی؛ کیونکہ لوگ اپنے حاکم اور بادشاہ کے دین کے پابند ہوتے ہیں جہاں برائی کے اڈے اور فساد کے مراکز ہوں گے لوگ اپنی اور معاشرہ کی فکر کرنے کے بجائے اپنی ہوس اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے رهیں گے بلکہ اچھائی برائی لگے گی۔ اچھے کے ساتھ ظلم ہوگا۔

خداوند عالم تمام انسانوں کو ان بری عادات و اطوار سے محفوظ رکھے اور سب کو ایک اچھا انسان بننے کی توفیق دے۔آمین۔

ای میل کریں