20/ ویں رمضان کا دن
اس دن سن 8/ ھ ق کو فتح مکہ ہوئی ہے اور رسولخدا (ص) مسجد الحرام میں آئی اور اس میں رکھے بتوں کے توڑنے کا حکم دیا۔ اس وقت خانہ کعبہ کے اطراف 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ رسولخدا (ص) نے اپنے عصا سے ہر ایک کی طرف اشارہ فرمایا اور آیہ "قل جاء الحق" کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضرت خانہ کعبہ کی کنجی طلب کی اور دروازہ کھولا اور اندر جا کر نماز پڑھی اور باہر آئے۔ خانہ کعبہ کے اندر بنائی ہوئی تصویروں کو مٹا نے کا حکم دیا اور خانہ کعبہ کے دروازہ کے دونوں بازو کو پکڑ کر تہلیل "لا الہ الا اللہ" پڑھا۔
قریش صف بستہ خوفزدہ تھے کہ رسولخدا (ص) اب ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ حضرت نے ان لوگوں سے خطاب کرکے کہا کہ تم لوگ اپنے بارے میں کیا گمان کررہے ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہمیں خیر کا گمان ہورہا ہے، "اخ کریم و ابن اخ کریم وقدرت" اس بات ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع) کے واقعہ اور آپ کے اپنے بھائیوں کے معاف کرنے کی طرف اشارہ کیا۔ رسولخدا (ص) پر رقت طاری ہوگئی اور آپ کی چشم مبارک میں آنسو آگئے اور اہل مکہ بھی چیخ چیخ کر رونے لگے ۔ اس وقت حضرت نے وہی کہا جو حضرت یوسف (ع) نے کہا تھا اور ان کے جرم و خطا کو معاف کردیا۔
جب نماز کا وقت آیا تو بلال کو خانہ کعبہ کی چھپ پر جا کر آذان کہنے کا حکم دیا۔ نماز کا اعلان ہوا۔ قریش کی جماعت جیسے عکرمہ، خالد بن اسید اور ابوسفیان نے زبان سے بری بات کہی۔ اس کے بعد قریش کے مرد، رسولخدا (ص) کی بیعت کرنے کے لئے حضرت کے پاس آئے اور مسلمان ہوگئے۔ اسی وقت سورہ "اذا جاء نصر اللہ و الفتح" نازل ہوا۔ منقول ہے کہ اسی دن حضرت علی (ع) نے اپنے قدم دوش پیغمبر (ص) پر رکھے اور کعبہ کی چھت پر جا کر سارے بتوں کو زمین پر گرادیا اور توڑ ڈالا اور ادب کی رعایت کرتے ہوئے خود کو کعبہ کے پرنالہ سے زمین پر گرایا۔
اسی دن سن 542 ھ ق کو سید شریف ابوالسعادات ھبة اللہ بن علی حسنی "ابن شجری" سے مشہور بغدادی نحوی صاحب امالی و .. اور ابن سید جلیل علمائے امامیہ کے اکابر اور مشائخ میں سے ہیں؛ کا انتقال ہوا ہے۔