ابنا۔ بدھ کے روز اعلی فوجی کمانڈروں اور بری فوج کے افسران سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فوج کو ہمیشہ سے زیادہ متدین اور کارآمد ترین طاقت قرار دیا۔
آپ نے فرمایا کہ ہر وہ کام اچھا اور ٹھیک ہے کہ جس سے دشمن مشتعل ہو اور اس کے برخلاف دشمن کو جری اور گستاخ بنانے والے کاموں سے ہر کسی کو گریز کرنا چاہیے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کے خلاف امریکیوں کی من گھڑت اور بے بنیاد باتوں کا مقصد، عوام کے حوصلوں کو کمزور کرنا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکہ ہزاروں ارب ڈالر کا مقروض اور لاتعداد مشکلات اور مسائل میں پھنسا ہوا ہے اور کئی سال گزرنے کے باوجود کیرولائنا جیسے علاقوں میں سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں اور نقصانات کا ازالہ نہیں کر پایا ہے لیکن ایرانی عوام کے حوصلے کمزور کرنے کے لیے یاوہ گوئی کر رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی فوج اور مسلح افواج کی علاقائی پوزیشن اور دشمن کے فتنوں کے خلاف ان کی محاذ آرائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اگر ایران کی فوج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی داعش کے خلاف جنگ نہ کرتی تو آج خطے اور ہمارے ہمسایہ ملکوں کی صورتحال کیا ہوتی اور وہاں کون حکومت کر رہا ہوتا؟
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ داعش کے خلاف جنگ میں الجھے ہر ملک نے اس کا مقابلہ اور لازمی اقدامات انجام دیئے لیکن ایران کی مسلح افواج کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
آپ نے فرمایا کہ درحقیقت ایران کی مسلح افواج کی برکات، ملت ایران کے علاوہ دیگر ملکوں تک بھی پہنچ رہی ہیں۔
ایران کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے بری فوج کے قومی دن کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے مسلح افواج کو قومی طاقت کا مظہر قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں، حتی آزادی اور انسانی حقوق کے دعویدار ممالک میں، مسلح افواج ڈکٹیٹروں کا طاقتور بازو اور عوام سے نمٹنے والا عنصر شمار ہوتی ہیں اور پیرس میں ہر ہفتے کے واقعات اس کی ایک مثال ہیں۔