اس وقت اس منصوبے اور المیہ کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا، خودکشی کی حیثیت رکھتا ہے اور سیاہ وتاریک موت کو گلے لگانے اور ایک عظیم قوم کے زوال کے مترادف ہے۔ جب تک فرصت ہے اس خاموشی اور سکوت کو توڑنا ضروری ہے جس کیلئے نافرمانی اور اعتراض شروع ہوجانا چاہیے۔ علماء اور خطبائے اسلام پر لازم ہے کہ وہ مساجد اور محافل میں اس حکومت کے خفیہ منصوبوں سے قوم کو آگاہ کریں اور اسلام ومسلمین خصوصاً علمائے اسلام کیلئے یہ جو عظیم مشکل پید اہوگئی ہے، اس میں کسی قسم کے اقدام سے دریغ نہ کریں ، مراجع عظام بھی اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر بیان اور نشر کریں ۔(صحیفہ امام، ج ۲، ص ۴۸۵)
قیامت کے دن نہی عن المنکر کے تارک کا مقام
یہ ایک عمومی مطلب ہے کہ {مَن رأیٰ}جو بھی دیکھے کہ ایک سلطان جائر ہے اور وہ ان امور سے متصف ہے تو اگر وہ اس کے مقابلے میں خاموش رہے اور کوئی بات نہ کرے نہ ہی کوئی اقدام کرے تو ایسے شخص کا مقام وہی سلطان جائر کا مقام ہے۔
اگر کوئی دیکھے کہ محمد رضا خان میں یہی صفات (ظلم وجور) پائی جاتی ہیں اور وہ اس کے مقابلے میں خاموش رہے اُس کا ٹھکانہ جہنم میں وہی ہے جو محمد رضا خان کا ہے۔ خواہ وہ تہجد گذار ہو، خواہ وہ کوئی عالم دین ہو، خواہ اس نے اپنی تمام عمر اطاعت خدا میں گذاری ہو، اگر وہ ایسے (ظالم) انسان کے مقابلے میں ساکت رہے گا تو (اس منقولہ روایت کے مطابق کہ جو سید الشہدا (ع)کے ذریعے رسولخدا ﷺسے نقل ہوئی ہے کہ رسولخدا ؐ نے اس طرح فرمایا ہے)۔ اب کیسے ایک قوم خاموش رہ سکتی ہے؟ سب بہانے بیکار ہیں ، یہاں ہر قسم کا بہانہ ناقابل قبول ہے۔ اگر ہم چار افراد بھی ہوتے تو قاعدتاً ہمیں قیام کرنا چاہیے تھا، کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم تنہا ہیں ، اب تو پوری ملت ہے، پوری ملت جمع ہوچکی ہے اور اس سلطان جائر کے مقابلے میں قیام کیئے ہوئے ہے۔(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۹۳)
واضح ہے کہ جو طریقہ اس ظالم وجابر حکومت نے اختیار کیا ہوا ہے، اگر مسلمانوں نے غفلت کی اور اس کی شدید نگرانی نہ کی اور اسلام وقرآن کریم کی حفاظت نہ کی تو خد انخواستہ، بہت جلد یہ ناپاک اور اغیار کی غلام حکومت، اسلام کے ضروری احکا م سے تجاوز کرتے ہوئے اسلام مقدس کی بنیادوں پر حملہ کرنا شروع کردے گی۔(صحیفہ امام، ج ۱، ص ۲۲۰)