صبر و بردباری، مجسمہ تقوی و پارسائی، مشعل حق و حقیقت، جلوہ جمال الہی اور جلال کبریائی، مرکز اخلاص و معرفت، جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی (ع) ولایت و امامت کے شجرہ طیبه کے عاشقوں کو مبارک ہو۔
حضرت امام محمد تقی (ع) 10/ رجب سن 195 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور شاخسار امامت کو پھر تجلی ملی۔ امام محمد تقی جواد (ع) کے دریائے فضائل بے کراں ہیں۔ آپ خدا کے برگزیدہ بندہ، قرآن ناطق، حقیقت مجسم اور توحید کے رہبر ہیں۔ آپ نے اپنی امامت کے مختصر دور میں اپنے کردار و گفتار سے خالص معارف الہی و نبوی و علوی سے مومنین کی تشنگی بجھائی۔ حضرت جواد (ع) کے شیعوں اور مسلمانوں کی تربیت کے لئے مختلف موضوعات میں اخلاقی اور تربتی اقوال ہیں جن کی جانب توجہ دینا شیعوں کے لئے شائیستہ اور سزاوار ہے۔
امام جواد (ع) توبہ میں تاخیر کرنے، آج اور کل پر ٹالنے، گناہ پر اصرار کرنے اور مکر الہی خدا محفوظ ہونے سے منع فرماتے تھے۔ مومن کو تین واقعی ضرورت کی جانب متوجہ کرتی ہیں:
- خدا کی جانب توفیق
- نفسانی نصیحت کرنے والا
- نصیحت قبول کرنے
امام جواد (ع) ایک بے نظیر اور لاجواب شخصیت تھے اور علمی و اخلاقی فضائل کے حامل اور تمام کمالات کے جامع فرد تھے جس کا دوست اور دشمن دونوں ہی اعتراف کرتے تھے اور حیرت زدہ ہو کر تعریف و تمجید کرتے تھے۔ تمام علمائے شیعہ نے آپ کی عظمت و کرامت، علم و حلم اور دیگر کمالات کی تصریح کی ہے اور آپ کو آپ کے جد رسولخدا (ص) اور علی مرتضی (ع) کی طرح تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع جانتے ہیں۔ اسی طرح علمائے اہلسنت بھی امام جواد (ع) کی اپنے زمانہ کے تمام لوگوں پر فضیلت اور برتری کے قائل اور معترف ہیں۔ امام جواد (ع) نے تمام انسانی اور اخلاقی فضائل اور کمالات اپنے اجداد طاہرین سے میراث پائی ہے۔ آپ کی ایک خصلت شجاعت اور حق بات کرنے میں صاف گوئی ہے۔
واقعہ ہے کہ ایک دن مامون رشید کسی راستہ سے گذر رہا تھا، گلی میں کھیلتے بچوں نے جب اس کی شاہی سواری دیکھی تو خوف کے مار بھاگ کھڑے ہوئے صرف ایک بچہ اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ مامون بچہ کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ سارے بچے بھاگ گئے تم کیوں نہیں بھاگے؟ آپ نے جواب دیا: میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے کہ اس کی سزا کے خوف سے بھاگ جاتا اور خلیفہ کے لئے راستہ بھی تنگ نهیں ہے تا کہ کنارہ جاکر راستہ دیتا۔ تم جہاں سے چاہو جاسکتے ہو۔ مامون بچہ کی بات میں صراحت اور بے باکی دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا اور بولا: تم کون ہو؟ بچہ نے پورے فخر کے ساتھ کہا: میں محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابیطالب ہوں۔ مامون نے پوچھا: تمہارے پاس کتنا علم ہے؟ امام جواد (ع) نے فرمایا: آسمانی علوم کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو۔ مامون خداحافظ کہہ کر روانہ ہوگیا۔
مامون ذریت پیغمبر اور نسل حضرت علی (ع) اور حضرت زہرا (س) کے جواب سے حیرت میں پڑضرور گیا لیکن دل سے راضی نہ تھا پھر بھی امام جواد (ع) کے فضائل اور کمالات بیان کرنے لگا اور بولا: تم نے سچ کہا اور تمہارے آباء و اجداد نے بھی صداقت سے کہا ہے۔ خدا سے خوف کرنے والے انسان کبھی دوسرے سے نہیں ڈرتے، ان کے دل و دماغ میں خوف خدا ہوتا ہے۔ وہ کسی غیر خدا سے کیوں ڈریں، وہ خدا کے بندہ اور نمائندہ ہوتے ہیں اپنا پیغام صراحت کے ساتھ پہونچائیں گے۔