امام محمد باقر علیہ السلام کی اخلاقی و سیاسی سیرت
واضح ہے کہ ائمہ اطہار علیھم السلام کی زندگی کے کلی اصول اور ضوابط سے آشنائی انسان اور سماج دونوں کی ترقی و رشد میں اہم کردار ادا کرتا ہے، ائمہ اطہار علیھم السلام میں پانچویں امام محمد باقر علیہ السلام ہیں اور امام محمد باقر علیہ السلام ایسے پہلے امام ہیں جن کی ولادت ۱ رجب المرجب سن ۵۷ ہجری میں علوی خاندان میں ہوئی اور آپؑ کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ آپؑ کی ولادت امامت کے دو سمندروں سے ملنے کے نتیجہ میں ہوئی۔ آپؑ کے والد گرامی امام سجادؑ ہیں جو زہد، تقوی، صبر اور پائداری میں سب کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپؑ کی والدہ ماجدہ فاطمہ ہیں جو امام حسن مجتبیؑ کی بیٹی ہیں۔ آپؑ کے بہت سے القاب ہیں جن میں سب سے مشہور لقب باقر ہے اور یہ لقب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب سے آپؑ کو دیا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جابر بن عبداللہ انصاری سے فرمایا: تم زندہ رہو گے اور میرے بیٹے محمد بن علی بن الحسین بن ابی طالبؑ سے ملاقات کرو گے جن کا نام توریت میں باقر ہے اور جب ان سے تمہاری ملاقات ہو تو میرا سلام ان تک پہونچانا۔ پانچویں امام کی دو یا بعض اقوال کی بنا چار بیویوں سے سات بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئے، اہل تشیع کے امام ہونے کے عنوان سے آپؑ کی منجملہ صفات میں سے کچھ نمایاں صفات یوں ہیں: صبر، سخاوت، بخشش، رضایت، حق کے سامنے تسلیم ہو جانا، شجاعت، بہادری، علم، عصمت، تواضع، انکساری وغیرہ وغیرہ۔ امام باقر علیہ السلام کے حالات زندگی میں منقول ہے کہ آپؑ کو غصہ کبھی بھی نہیں آتا تھا اور جس سے بھی آپؑ کی ملاقات ہوتی تھی اس کا احترام کیا کرتے تھے اور اسے سلام عرض کرنے کے بعد اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر فرمایا کرتے تھے کہ یہ کام دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے اور دشمنی کو مٹا دیتا ہے۔ امام محمّد باقرعلیہ السلام ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو اس بات سے خبردار کرتے تھے کہ کہیں وہ سختیوں کی وجہ سے راہ حق و حقیقت سے دست بردار نہ ہوجائیں۔ آپ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ : حق اور حقیقت کی حمایت کریں صراط مسقتیم میں پائدار اور ثابت قدم رہیں کیونکہ اگر کسی نے مشکلات اور دشواریوں کی وجہ سے حق کا ساتھ نہ دیا اور حق سے منہ موڑ لیا یا چشم پوشی کی تو وہ راہ ناحق اور باطل میں ڈوب کر مشکلات سے دوچار ہوجائے گا۔ امام باقر علیہ السلام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہ نیک اور صالح ہوئے تو پوری امت نیک و صالح بن جائے گی امت کی اصلاح ہوگی اور اگر یہی دو گروہ برے اور بدکردار ہوئے تو وہ اپنے ساتھ امت کو بھی برائی اور بدکرداری کی طرف لے جائیں گے۔ ان میں سے پہلا گروہ دانشوروں کا ہے اور دوسرا گروہ حکمرانوں کا۔ لہذا اگر یہ دونوں نیک اور اچھے ہوئے تو معاشرہ بھی نیک اور اچھا ہوگا اور اگر یہ برے ہوئے تو معاشرے کو بھی برائی کی طرف دھکیل دیں گے۔ دوسرے یہ کہ آپؑ کبھی بھی اونچی آواز میں نہیں ہنستے تھے اور جب بھی مسکراتے تو خدا کی جانب متوجہ ہوکر اس کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے: "اللھم لا تمقتنی" خدایا کبھی بھی مجھ پر غضبناک نہ ہونا۔ رات کی تاریکی میں خداوندمتعال کی بارگاہ میں راز و نیاز کرتے ہوئے فرماتے تھے: اے خدا! تو نے مجھے حکم دیا لیکن میں نے تیری اطاعت نہ کی، تو نے مجھے منع کیا لیکن میں نہیں رکا۔ میں تو تیرا بندہ ہوں اور میں نے تیری بارگاہ میں اپنی پیشانی رکھی ہے۔ امام باقر علیہ السلام کے علم کے بارے میں یہ کہنا لازمی ہے کہ آپؑ علم و تقوی کے اعتبار سے ہر عام و خاص کی نگاہ میں امام سجادؑ کے تمام بیٹوں و بیٹیوں پر مقدم تھے اور امام حسن اور امام حسینؑ کی اولاد میں تفسیر، کلام، عقائد، احکام وغیرہ کے سلسلہ میں جو کچھ آپؑ سے صادر ہوا ہے وہ کسی دوسرے سے صادر نہیں ہوا ہے۔ امام باقر علیہ السلام نے سات سال کی عمر میں حج بھی کی تھا علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ راوی بیان کرتا ہے کہ میں حج کے لیے جا رہا تھا،راستہ پرخطر اور انتہائی تاریک تھا جب میں لق ودق صحرا میں پہنچا تو ایک طرف سے کچھ روشنی کی کرن نظرآئی ۔ میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ ناگاہ ایک سات سال کا لڑکا میرے قریب آ پہنچا،میں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آ رہے ہیں اورکہاں کا ارادہ ہے، اورآپ کے پاس زاد راہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا، سنو میں خدا کی طرف سے آرہا ہوں اورخدا کی طرف جا رہا ہوں، میرا زاد راہ ”تقوی“ ہے ۔ میں عربی النسل ،قریشی خاندان کا علوی نزاد ہوں،میرا نام محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہے، یہ کہہ کر وہ دونوں سے غائب ہو گئے اورمجھے پتہ نہ چل سکا کہ آسمان کی طرف پرواز کر گئے یا زمین میں سما گئے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے دوران امامت یعنی سن ۹۵ سے ۱۱۴ ہجری تک کے حکام یوں ہیں: ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اور ہشام بن عبدالملک۔ مذکورہ حکام میں صرف عمر بن عبدالعزیز ایسا حاکم تھا جو امام باقر علیہ السلام اور آپؑ کے چاہنے والوں سے تھوڑا نرمی سے پیش آتا تھا اور اس کی حکومت کا مقصد، عدالت کا نفاذ تھا اور اس نے اس راستہ میں نہایت اہم قدم اٹھایا۔ ہر زمانے کے سیاسی حالات بدلتے رہتے ہیں لہذا امام باقر علیہ السلام کے زمانے کے سیاسی حالات بھی اپنے خاص شرائط کے حامل تھے، جس کے وجہ سے امامؑ نے بھی سیاسی نوعیت کو بدلا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقیّہ ان میں سے نمایاں تھا اور اس کے بعد علم اور دوسرے مناظرات سے مستفید ہونا وغیرہ۔ آخر کار امام باقر علیہ السلام ۱۱۴ ہجری میں ستاون برس کی عمر میں حاکم مدینہ کے حکم سے ھشام بن عبدالملک کے ہاتھوں منزل شھادت پر فائز ہوئے اور انہیں بقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔