امام خمینی (رح) کی قیادت و رہبری میں ایران کا اسلامی انقلاب لوگوں کے ظلم و جور، ناانصافی اور حکومت کے تشدد کے مقابلہ میں تھا۔ اس حکومت کی طرف جو عظیم قوم کی توہین، اس کی طرف بے توجہی اور اس کی دینی پہچان سے بے اعتنائی کررہی ہے اور اسی کے لئے اس کی بنا رکھی گئی تھی، اس حکومت کے حکمرانوں کے نزدیک لوگوں کی ذرہ برابر کوئی ارزش و اہمیت نہیں تھی۔
یہ لوگ صرف اغیار کے کاسہ لیس، چمچے اور چاپلوس تھے اور انهیں خوش کرنے میں لگے ہوئے تھے تا کہ کچھ دنوں تک تخت اقتدار پر بیٹھ جائیں اور عیش و نوش میں مشغول ہوں۔ چنانچہ یہ انقلاب ان مستکبروں کے خلاف ایک تحریک تھا جو اقوام و ملل پر قبضہ جمانے اور ان کی توہین کرنے عادی ہوچکے تھے اور یہ لوگ اپنے اور اپنے لوگوں کے عیش و عشرت کے اسباب فراہم کرنے کے لئے دیگر ملتوں اور اقوام کے مفادات پر ڈلکہ ڈالتے اور لوٹتے تھے اور اس درجہ بے حیا تھے کہ ان کے مفادات اور منافع کو لوٹنے کے لئے ڈرانے دھمکانے کا بھی حق لیتے تھے؛ کیونکہ ان کے ماننے والے مجبور تھے اور دوسروں کی دولت لوٹنے کے لئے ان کی سرزمین کا سفر کرنا اور چند روز اس دیار میں گذارنا ان کے لئے ضروری تھا۔
امام خمینی (رح) نے اس صورتحال سے مقابلہ کرنے کے لئے مخالفت کا علم بلند کیا تا کہ مظلوم اور کمزور ملت کا دفاع کریں اور اقوام و ملل کو اپنے حقوق کا دفاع کرنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھائیں۔ آپ نے ان لوگوں پر تنقید کی جو ملت ایران کو طاقتوں سے ساز و باز کرنے کی تاکید کرتے تھے اور آپ نے فرمایا:
"ظلم کے ساتھ ساز باز مظلومین پر ظلم ہے، بڑی طاقتوں سے ہاتھ ملنا انسان پر ظلم ہے۔"
امام خمینی (رح) اپنی زندگی میں اقوام و ملل کی رقت بار اور دردناک صورت حال بالخصوص ایران کی مظلوم اور ستمدیدہ ملت کے حالات سے باخبر تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ لوگ ظلم سہہ رہے هیں اور مصائب برداشت کررہنے سے رنجیدہ رہتے تھے۔ لہذا آپ نے انبیائے الہی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی الہی رسالت کو انجام دینے کے لئے مقابلہ کا پرچم بلند کیا۔ اس مقابلہ کی وجہ وہی تھی جو منحوس پہلوی حکومت نے انسان کی "عزت و اور کرامت" کو برباد کرنے کے لئے اغیار سے مل کر قانون بنادیا تھا۔ چونکہ کیپٹالیزم بل انسان کی عزت و شرافت کی دھجیاں اڑارہا تھا۔
امام خمینی (رح) عظیم روح اور بے نظیر عظمت کے مالک انسان تھے اور ایرانی قوم کے حق میں اس توہین کو برداشت نہ کرسکے اور آپ نے اس بل کی مخالفت میں اپنی مشہور تقریر میں قوم کی مظلومیت پر گریہ کیا اور امریکہ کے پٹھووں کے ذریعہ لوگوں کی ہونے والی توہیں پر شدید تنقید کی ۔
اس تقریر کی اہمیت یہ ہے کہ یہ تقریر لوگوں کو بیدار کررہی تھی اور اغیار کے لوٹ مار اور غنڈہ گری کی بساط کو لپیٹ دیا تھا اور اس کا اثر زیادہ تھا کہ آپ کو اس تقریر کے فورا بعد ہی گرفتار کرلیا گیا اور ملک بدر کردیا گیا۔
بے نام و نشان پہلوی حکومت اپنے اسلاف کی طرح لوگوں کی بیداری سے ڈر رہی تھی اور اس بات سے کہ اگر لوگ جان گئے کہ ہماری حکمرانوں اور اغیار کے ذریعہ کس طرح توہیں کی گئی ہے اور اس کا فائدہ اغیار اور اسلام مخالف طاقتوں کو ہونے والا ہے، کافی خوفزدہ تھی۔ اس قانون کی سینٹ اور پارلیمنٹ میں منظوری کی کیفیت سے بخوبی واضح ہے اور یہ گھبراہٹ اور وحشت دکھائی دے رہی تھی۔
بل کی منظوری اتنی اہمیت کے باوجود سر بستہ اور سرعت کے ساتھ ساواک کے کسی ایک سند میں اس واقعیت کو بیان کررہی ہے۔ امریکی مشیروں کے تحفظ کے قانون کی منظوری منگل کے دن مورخہ 13/ اکتوبر سن 1964 ء شورائے ملی کی پارلیمنٹ میں ہوئی۔ لیکن اخبار اور ریڈیو میں نشر نہیں ہوا۔ بعض ناراض اور جستجو کرنے والے افراد ملک کی بعض سیاسی شخصیوں لینڈ لائن سے ٹیلیفون کیا اور کہتے ہیں کہ اس قانون کی منظوری سے ایرانیوں کی حیثیت پامال ہوتی ہے اور ملک ایران امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا ہے اور اس کے بعد وہ لوگ ایران میں جو چاہیں کریں گے اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہوگا اور کوئی ان پر اعتراض کرنے کا حق بھی نهیں رکھے گا۔