امام کی جلاوطنی سے مطلع ہونے کے بعد عوام نے بازاروں کو تعطیل کردیا اور حوزہ علمیہ قم بھی تعطیل ہوگیا۔ گروہی اور مختلف صوبوں کے عوام اور طلاب کا اعتراف شروع ہوگیا۔ مختلف ممالک کے علماء اور طلاب نے وزیر اعظم حسن علی منصور کو تلگراف بھیج کر حکومت کے اس ناپاک کام پر اپنے اعتراض کا اعلان کیا۔ تہران کے کچھ عوام نے تہران میں حاج سید عزیز اللہ کی مسجد میں اجتماع کرکے اعتراض کیا اگرچہ حکومت کے مامورین کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ یاد رہے کہ اعتراضات اور دھرنوں میں کوئی خاص جان نہیں تھی۔ حوزہ علمیہ قم نے 15/ دن تعطیل کے بعد مراجع کے حکم سے اپنے کام کا آغاز کیا اور اندرونی اخبار نے امام کی جلاوطنی کی وجہ سے قومی امنیت میں خلل اندازی سے روکنا اور اس کے مانند مسائل ذکر کئے۔ اغیار کے ذرائع ابلاغ بھی پہلوی حکومت کے ساتھ ہوکر انہی باتوں کی تکرار کی اور بہت تیزی سے اس واقعہ پر پردہ ڈال دیا اور اس کے بارے میں کوئی خاص چون و چرا نہیں کیا۔