حضرت فاطمہ زہراء (س)

شہادت حضرت فاطمہ زہراء (س)

جو تم لوگوں سے دوستی کرے وہ میرا دوست ہے اور جو تم سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے

حضرت فاطمہ زہرا (س)، رسولخدا (ص) کی بے بدیل یادگار،  اکلوتی بیٹی اور فخر النساء اور سیدة العالمین نور دیده رحمة للعالمین ہیں۔ اس ذات گرامی کا نام ہے جس کے ناراض ہونے سے خدا ناراض ہوتا ہے اور جس کے خوش ہونے سے خدا خوش ہوتا ہے۔ حضرت رسولخدا (ص) اور حضرت علی مرتضی (ع) کے بعد جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور خدا کی تمام مخلوقات سے بالاتر ہیں۔

آپ 20/ جمادی الثانیہ کو مکہ میں پیدا ہوئیں اور ایک روایت کی بنا پر 13/ جمادی الاولی کو باپ کی رحلت کے 75/ دن بعد شہید ہوگئیں اور ایک روایت کے مطابق 95/ دن بعد 3/ جمادی الثانیہ کو شہادت ہوئی ہے۔

یہ رحمت للعالمین، سید الانبیاء و رسل حضرت محمد مصطفی (ص) کی اکلوتی بیٹی اور حضرت علی مرتضی امیر المومنین (ع) کی شریک حیات اور حسنین (ع) اور جناب زینب کبری  اور ام کلثوم (س) کی والده گرامی ہیں۔ آپ کی زندگی مختصر رہی ہے اور 18/ سال کی عمر میں دار فانی کو خداحافظ کہہ دیا ہے لیکن آپ کی حیات طیبہ اخلاقی اور روحانی عظیم دروس سے لبریز ہے۔

یہ بانو گرامی مختلف میدانوں اور صدر اسلام کے نشیب و فراز سے مملو دور میں رسولخدا (ص) اورحضرت علی (ع) کے ہمراہ تھیں اور آپ نے ایسے دور میں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) جیسے تاریخ کے گہر بار فرزندوں کی تربیت کی۔ حضرت زہراء (س) کی عظیم شخصیت کے بارے میں دانشوروں نے بہت کچھ لکھا اور بیان کیا ہے اور آپ کو مسلمان خاتون کا ایک جامع و مانع نمونہ قرار دیا ہے۔ حضرت زہرا (س) کے ایمان، صداقت، علم و آگہی اور طہارت و پاکیزگی، دفاع ولایت اور امامت کو عورتوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے پیغمبر اکرم (ص) حضرت فاطمہ زہراء (س) کو دنیا کی تمام عورتوں کی سردار کہاہے۔ آپ فرماتی تھیں کہ دنیا سے مجھے تین چیز محبوب ہے؛ قرآن کی تلاوت، پیغمبر (ص) کے چہرہ کی زیارت اور راہ خدا میں انفاق۔

جب آپ کی شادی کا وقت آیا تو رسولخدا (ص) نے فرمایا: فاطمہ کی شادی کا معاملہ خدا کے اختیار میں ہے۔ خدا کی جانب سے پیغمبر (ص) کی خدمت میں فرشتہ آیا اور کہا: خداوند عالم نے مجےھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ نور کی نور سے شادی کردوں یعنی فاطمہ کی علی سے۔ ازدواجی زندگی کی پہلی رات کو رسولخدا (ص) نے دونوں سے خطاب کرکے فرمایا: خداوند عالم تمہاری نسل کو پاک و پاکیزہ قرار دے جو تم لوگوں سے دوستی کرے وہ میرا دوست ہے اور جو تم سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے۔

آپ کی عفت و پاکدامنی میں اتنا ہی کافی ہے کہ آپ اپنی مختصر عمر کے آخری ایام میں جب تشییع جنازہ کے لئے تابوت کی رسم نہیں تھی، اسماء جو ایک پاکدامن اور پرہیزگار خاتون ہیں، سے درخواست کی تا کہ ان کے لئے تابوت بنوائیں تا کہ شہادت کے بعد شب کی تاریکی میں بھی آپ کا جسم نازنین پوشیدہ رہے اور مکمل حجاب میں رہے۔ آپ کی مہربانی اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ کسی شب جمعہ میں امام حسن (ع) نے اپنی والدہ گرامی کو محراب عبادت میں دیکھا کہ شب سے صبح تک صرف لوگوں کے لئے دعا کررہی ہیں اور اپنے لئے کوئی دعا نہیں کی۔ جب آپ نے سوال کیا تو حضرت زہراء نے فرمایا: میرے بیٹے! پہلے پڑوسی پھر گھروالے۔

آپ کا ایمان اس حد تک تھا کہ آپ کے بارے میں رسولخدا (ص) نے فرمایا: خداوند عالم نے فاطمہ کا دل، اعضاء و جوارح کو ایمان و یقین سے پر کیا ہے۔ آپ کی عظمت کے لئے اتنا ہی بس ہے کہ اگر آپ نہ ہوتیں تو حضرت علی (ع) کاکوئی کفو نہ ہوتا۔

ای میل کریں