شیخ حسین لنکرانی بظاہر انقلابی تھے لیکن ان کی حرکات و سکنات ہمارے لئے مشکوک تھی۔ وہ ایک طرف سے خود کو بہت بڑا انقلابی اور سرگرم بتاتے تھے اور دوسری طرف کتاب شہید جاوید کے معاملہ میں علماء، مراجع اور عوام کے احساسات کو بھڑکانے میں بڑا ہاتھ تھا اور مسلسل آقا گلپائگانی اور مرحوم آقا نجفی کے بیوت میں رفت وآمد رکھتے تھے اور انہیں تحریک کرتے رہتے تھے۔
اسی طرح وہ ڈاکٹر شریعتی کے خلاف علماء کے احساسات کو بھڑکانے اور اس کے خلاف حسینیہ ارشاد میں سرگرمی دکھاتے رہے۔ اور جو لوگ ان کے پاس رفت و آمد رکھتے تھے ان کے بقول جنوب تہران میں ان کا گھر اس قسم کی سرگرمی کا مرکز تھا اور وہاں بہت سارے مقررین، خطباء اور روضہ خوانوں کی آمد و رفت تھی اور وہاں سے فکری غذا حاصل کرکے آتے تھے اس کے بعد یہی لوگ کہتے تھے وہاں مشکوم اور قوی احتمال کے مطابق ساواکی تھے اور وہ لوگ انہیں اس سرگرمی کو جاری رکھنے کی ترغیب دلاتے اور تشویق کرتے تھے اور شاید اسی وجہ سے تھا کہ حضرت امام خمینی (رح) نے ان کی طرف نہ انقلاب سے پہلے اور نہ بعد میں کوئی توجہ نہیں دی۔