جب انسانوں کے درمیان برابری کا قانون مان لیا جائے اور اسے انسانی کرامت کے عنوان سے ایک اصل اور قانون قبول کرلیا جائے تو پھر ہم انسانی کرامت کے تحقق اور اسے وجود عطا کرنے کے لحاظ سے عدالت اجرا کرنے پر مجبور ہیں۔ انسانی کرامت کے جلووں کے تحقق اور اسے وجود میں لانے کا ایک اہم ترین اور کارآمدترین جلوہ ہے جو حضرت امام علی (ع) کے کلام، آپ کی سیرت میں دکھائی دیتا ہے۔
عیسائی دانشور جرج جرداق لکھتا ہے: علی کی نظر میں حکومت کوئی دروازہ نہیں ہے کہ فرمانروا اور حاکم اسے خیرات اور بے حساب نعمتوں کے لئے کھول دے اور اسے افراد کی حد تک فیض اٹھائے اور بیماری کی حد تک کھائے اور باقی بچے ہوئے کو اپنے قرابتداروں، رشتہ داروں، بھائیوں، دوست احباب اور اصحاب و انصار کے درمیان تقسیم کردے بلکہ ایسا دروازہ ہے کہ اس حکومت کا حاکم عدالت پروری کے لئے اسے کھولے اور لوگوں کے درمیان مساوات اور برابری قائم کرنے کی حتی الامکان کوشش کرے۔
شہید مطهری عدالت علی (ع) کی اہمیت اور اس کے مقام و مرتبہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
عدالت حضرت علی (ع) کے نزدیک ایک اجتماعی اسلامی فلسفہ اور حکمت کی صورت میں مد نظر تھی اور آپ اسے عظیم اسلامی ناموس جانتے تھے اور عدالت کو ہر چیز سے بالاتر سمجھتے تھے اور آپ کی سیاست اسی اصل اور قانون کی روشنی میں تھی اور کسی بھی مقصد کے لئے معمولی سے معمولی انحراف اور لوچ ممکن نہیں تھی۔ یہی وہ واحد امر تھا کہ آپ کے لئے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہوئیں، جگہ جگہ پر رکاوٹیں تھیں۔ ایک مورح اور محقق کے لئے حضرت علی (ع) کی خلافت کے حوادث اور واقعات کا تجزیہ کرنے کے لئے یہ بات کلیدی اور بنیادی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت علی (ع) نے بڑی ہی سختی اور استحکام کے ساتھ عمل کیا اور اپنی عدالت میں لوچ آنے نہیں دیا۔
اگر مسلمانوں کے امور پر حاکم عدالت اور انصاف کا مظاہرہ کرے اور حقیقی عدالت نافذ کرے تو بہت سارے انسانی کرامتوں کے اصول پر عمل ہوجائے گا اور معاشرہ ایک انسانی اور اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔ نہج البلاغہ میں عدالت کی تین قسموں کی طرف توجہ دی گئی ہے:
1۔ اجتماعی عدالت:
حضرت علی (ع) کی اجتماعی اور معاشرتی عدالت کا اہم ترین جلوہ جو نہج البلاغہ میں بھی دکھائی دیتا ہے، وہ بیت المال کی حفاظت اور اس کا لوگوں کے درمیان عادلانہ طریقہ سے تقسیم کرنا ہے۔ آپ (ع) فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں بیت الامال کا تاراج شدہ مال جہاں کہیں بھی پاؤں گا اس کے اصلی مالک کو لوٹادوں گا اگر چہ اس مال سے لوگوں سے شادی بیاہ کرلیا ہوگا یا کنیزیں خرید لی ہوں گی، کیونکہ عدالت میں سب کے لئے وسعت ہے۔
2۔ اقتصادی عدالت
جب لوگوں نے آپ سے کہا کہ معاویہ بے شمار رقومات کے ذریعہ لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے تو آپ بھی ایسا کرکے عرب و عجم، امیر و غریب کو اپنی طرف مائل کیجئے تو آپ نے جواب دیا : کیا تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اپنی کامیابی کے لئے ظلم و جور کا استعمال کرکے امت مسلمہ کا حاکم بنارہا ہوں؟ خدا کی قسم! جب تک شب و روز کا سلسلہ ہے اور ستارے ڈوبتے اور نکلتے رہتے ہیں میں کبھی ایسا نہیں کروں گا۔ اگر یہ اموال میرے ہوتے تو میں لوگوں کے درمیان برابر سے تقسیم کردیتا چہ جائیکہ یہ اموال خدا کی ملکیت ہیں۔
3۔ عدالت قضائی (فیصلہ کرنے میں عدالت)
جب ابن ملجم نے آپ کے فرق اقدس پر کاری ضرب لگائی اور زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے آپ کی زندگی کا خاتمہ کردیا تو آپ نے فرزندان عبدالمطلب کو خطاب کرکے فرمایا: ایسا نہ ہو کہ میرے بعد مسلمانوں کا خون بہے اور مسلمانوں کے خون سے تمہارے ہاتھ رنگین ہوں اور تم کہو کہ امیرالمومنین اب تو شہید ہوگئے؛ جان لو! میرے قاتل کے علاوہ کوئی دوسرا مارا نہ جائے۔ صحیح فکر کرو! اگر میں اس کی ضرب سے مرگیا تو اسے صرف ایک ہی ضرب لگانا اور اس کے ہاتھ، پاؤں اور دیگر اعضاء کو نہ کاٹنا۔
اگر منصف مزاج انسان دیدہ انصاف سے غور کرے تو یقینا فیصلہ کرے گا کہ عالم گیتی پر علی (ع) جیسا عادل ان کے بعد نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا اور آپ جیسا عظیم انسان قیامت تک روئے زمین پر نظر نہیں آئے گا۔ علی (ع) اپنی عدالت کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔ آپ عالم دیناوی حکمرانوں کی طرح نہیں تھے ورنہ آج تک آپ کی حکومت کا آپ کی سیرت اور طرز زندگی کے مطابق سلسلہ جاری رہتا۔