حضرت امام خمینی (رح) ایمان کی اہمیت اور اس کے حاصل کرنے کی کیفیت کے بارے میں فرمایا:
ایمان تقوی کی ایک بنیاد اور بالتبع انسانی کرامت کا سبب ہے۔ انسان ایمان حاصل کرنے کی فکر میں ہو کہ اگر خدا نخواستہ اس عالم کہ حوادث اور تغیر کی جگہ ہے، اور اس میں ملکات، اوصاف اور قلبی صفات میں سے ہر ایک کو بدلہ جاسکتا ہے؛ سے باہر جائیں اور ہمارا ہاتھ ایمان سے خالی ہو تو زبردست نقصان ہوگا لہذا انسان اسی عالم میں، اس چند روز دنیا میں اپنے اوقات اور صبح و شام کو غنیمت جانیں اور جیسے بھی ہوسکے ایمان حالے کرے اور اس سے دل کو آشنا کرے۔ یہ انسانی سلوک کے پہلے مرحلہ میں عملی نہیں ہوتا مگر یہ کہ سب سے پہلے اپنی نیت کو معارف حاصل کرنے اور ایمانی حقائق کا ادراک کرنے میں خالص کرے اور اپنے دل کو تکرار اور بار بار یاددہانی سے اخلاص و عقیدت سے آشنا کرے تا کہ دل کے اندر خلاص کی جگہ بن جائے کیونکہ اگر اخلاص در کار نہ ہوگا مجبورا ابلیس کے ہاتھ کا تصرف ہوگا اور ابلیس و نفس کے تصرف (کہ خود پسندی اور غرور کے علاوہ ہے) سے کوئی معرفت حاصل نهیں ہوگی بلکہ خلوص سے خالی علم توحید بھی انسان کو توحید و معرفت کی حقیقت سے دور کردے گا اور تقرب الہی سے دور ہوجائے گا۔
تقوی کا دوسرا رکن اور کرامت تک رسائی کا عامل عمل صالح بالخصوص رب العالمین کی عبارت ہے، چنانچہ قرآن کریم اس شخص جس کے اندر ایمان اور عمل صالح ہے، متقی اور پرہیزگار شخص کے عنوان سے متعارف کراتا ہے اور تمام اعمال صالحہ کو ایمان کے متعلقات سمیت اس طرح شمار کرتا ہے۔ نیکی (اور نیکو کار )وہ ہے جو خدا، روز قیامت، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان لائے اور اپنا مال اس سےزبر دست لگاؤ کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، راہ خدا میں بے چارہ لوگوں، سوال کرنے والوں اور غلام پر خرچ کرتے ہیں، نماز قائم کرتے، زکوة دیتے اور (اسی طرح) جو لوگ اپنے عہد پر (جب وہ عہد کریں) تو پابندی کرتے اور اسے وفا کرتے ہیں اور محرومیتوں، بیماریوں کے سامنے اور میدان جنگ میں پائیداری اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی و پرہیزگار ہیں۔
خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: "یا ایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم و الذین من قبلکم لعلکم تتقون؛ اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والوں کو پیدا کیا ہے شاید پرہیزگار اور متقی بن جاؤ"
امام خمینی (رح) بھی عوالم برزخ اور دوزخ میں سچے ایمان اور عقیدہ کی ساتھ اعمال صالحہ کی تاثیر کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں:
انسان دیگر عوالم میں عذاب و عقاب کے عنوان سے وہی کچھ دیکھے گا جو اس نے ان عوالم میں فراہم کیا ہے اور اس عالم میں جو کچھ بھی اعمال صالحہ، اخلاق حسنہ اور عقائد صحیحہ رکھتا ہوگا اس عالم میں اس کی صورت ظاهری طور پر دیگر کرامتوں کے ساتھ جو حق نے اپنے فضل و کرم سے اسے عنایت فرمایا ہے، دیکھے گا۔
تقوی اگر چہ راہ کرامت کا زاد راہ اور آدمی کے کمال تک پہونچنے کا خمیر ہے لیکن اس کا حاصل کرنا علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ شناخت کے بغیر انسان خطا و لغزش سے محفوظ نہیں رہ سکتا لہذا اس کے لئے معرفت بیحد اہم اور ضروری ہے۔ حضرت امام (رح) معرفت کو عبادت کے ہمراہ کہ در حقیقت کرامت کا عامل ہے کو رحمت کا دروازہ بتاتے ہیں کہ خدا نے فرشتوں اور اپنے انبیاء کے ذریعہ بندوں کے لئے کھولا ہے۔ آپ (رح) فرماتے ہیں:
چونکہ بندوں کی خدا کی حمد و ثنا اور عبادت تک رسائی نہیں ہے اور حق کی معرفت و عبودیت کے بغیر کوئی بندہ مقامات کمالیہ اور مدارج اخرویہ تک نہیں پہونچ سکتا۔ چنانچہ اپنی جگہ پر علمائے آخرت کے نزدیک دلیل و برہان سے ثابت ہے اور عام لوگ اس سے غافل ہیں اور اخروی مدارج کو فضول یا فضول باتوں کی طرح مانتے ہیں۔ "تعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا" خداوند عالم نے اپنی رحمت واسعہ اور الطاف شاملہ سے ان کے لئے رحمت کا دروازہ اور اپنی عنایت و توجہ کا ایک باب کھولا ہے۔ یہ باب غیبی تعلیمات اور ملائکہ کے توسط وحی و الہام کے ذریعہ کھولا ہے (اور وہ باب عبادت اور معرفت کا باب ہے) اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کے طریقے تعلیم دیئے اور اپنی معرفت کا راستہ کھولا تا کہ حتی الامکان اپنے نقصان کو برطرف کریں اور کمال ممکن حاصل کریں۔ اور نور بندگی کی روشنی میں ہدایت پائیں اور عالم کرامت، روح و ریحان اور جنت نعیم بلکہ رضوان اللہ الاکبر تک پہونچ سکیں۔
خداوند عالم ہم سب کو ایمان، تقوی اور علم و عمل صالح کی توفیق عطا کرے اور ہدایت کا باب ہمیشہ کھلا رکھے۔ آمین۔