حضرت معصومہ (س) 23/ ربیع الاول سن 201/ ھ ق کو اپنے بھائی حضرت امام رضا (ع) کے شوق دیدار میں مدینہ سے خراساں کے لئے روانہ ہوئی تھیں لیکن ساوہ پہونچنے کے بعد بیمار ہوگئیں اور قم آنے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ کی آمد پر قم والوں نے استقبال کا بڑا اہتمام کیا اور آمد کی وجہ سے قم خوشیوں کا سماں پیش کرنے لگا اور خاندان اشعری کے بزرگ موسی بن خزرج استقبال کے لئے گئے اور آپ کے اونٹ کی مہار اپنے کاندھے پر رکھ کر قم لے آئے۔
قم والوں نے آپ (س) کا زبردست استقبال کیا اور آپ (س) 17/ دنوں تک آج کے "بیت النور" نامی مقام پر مہمان رہیں۔قم والوں کی قسمت کا ستارہ عروج پر رہا اور آج بھی ہے کیونکہ خاندان عصمت و طہارت کی با فضیلت اور اہل تقوی خاتون قم میں دفن ہیں۔ آپ نے 10/ ربیع الثانی کو دار فانی کو وداع کیا اور اس وقت ایک باغ میں آپ کا مزار ہے جہاں دنیا کے گوشہ و کنار اور چپہ چپہ سے زائرین اور اہلبیت (ع) کے چاہنے والوں کی بھیڑ رہتی ہے اور عاشقان ولایت یہاں آکر اپنا اپنا نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
جب آپ (س) قم تشریف لائی تھیں اور قم کے ایک مقام پر قیام فرمایا تو قم کی عورتیں خصوصا علوی خواتین آپ کی خدمت میں جاکر آپ سے علمی اور معنوی فیض حاصل کرتی تھیں۔ آپ کی عبادت گاہ میدان میر قم میں "بیت النور" کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کے آنے سے قم کا مقدر جاگا، اہل قم فضیلت میں چار چاند لگے، عظمت اور شان و شوکت دوبالا ہوئی۔ قم کا ذرہ ذرہ روشن و منور ہوگیا، قم علم و ادب اور فقہ و فقاہت کا مرکز بن گیا۔ آپ کے مزار اقدس سے آج بھی بے شمار فیوضات و برکات کا ظہور ہوتا ہے۔ لوگ دور دور سے آکر اپنی دلی مرادیں پاتے اور اپنی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور اپنے دامن مراد کو بھر کر واپس جاتے ہیں۔
قم کی نورانیت کا اندازہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان خود کو اس نور عظمت و شرافت سے قریب کرے گا، ان کی علمی اور معنوی عظمتوں کا ادراک کرے گا۔ ان کی معرفت اور شناخت رکھتا ہو یا معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرے اس وقت موسی بن خزرج اور شہر قم کے دیگر مومنین اور اہلبیت (ع) کے چاہنے والے حضرت معصومہ (س) کی عظمت سے واقف تھے۔ آپ کی علمی اور روحانی شخصیت کے بارے میں یقین اور ایمان رکھتے تھے۔ اسی لئے آپ کے استقبال میں بوڑھے، جوان، مرد عورت اور بچے سب گئے اور ایسا تاریخی استقبال کیا جو آج تک بے نظیر اور بے مثال ہے۔
قم والوں نے حضرت معصومہ (س) کی قدردانی اور عزت افزائی کی۔ اسی طرح آج بھی حضرت معصومہ (س) کے وجود نازنین کی بدولت قم والوں کی علمی، معنوی اور دیگر تمام مشکلات کی گتھیاں سلجھتی ہیں۔ لوگ آپ کے مزار پر جاکر اپنی عقیدتوں کی پھول نثار کرتے، اپنی محبتوں کا اظہار کرتے اور گریہ و زاری کرتے ہیں تاکہ گوہر مراد پاسکیں اور ایسا اکثر ہی ہوتا ہے کہ لوگ اپنی مراد پاتے ہیں۔ کوئی سوالی آپ کے در سے مایوس نہیں لوٹتا، اس باب فیض اور مصدر کرامت سے کوئی محروم نہیں ہوتا اور ہر ایک کی اس کی حیثیت اور مصلحت کے مطابق مراد پوری ہوتی ہے۔