اربعین، امام حسین علیہ السلام سے اپنے عشق و محبت کے جذبے کو ہر سال تازگی بخشنے کا بہترین موقع
اربعین کا عظیم اجتماع اس وقت عالم اسلام کی ایک نشانی اور علامت میں تبدیل ہوگیا ہے کہ جو درحقیقت ظلم سے مقابلے کے خلاف انسانی معاشروں اور مسلمانوں میں بیداری کے پہلو کو آشکار کر رہا ہے۔
خیبر تجزیاتی ویب گاہ کے ایک محقق کی رہورٹ کے مطابق جوق در جوق لوگ کربلا کی طرف رواں دواں ہیں عالم انسانیت کا ایک عظیم اجتماع ، نجف سے کربلا تک حریت پسندوں کا ایک جم غفیر، ہر طرف سے لبیک یا حسین کی صدائیں اس بات کا اظہار ہیں کہ آقا جس کربلا کو ۶۱ ہجری میں آپ نے تعمیر کیا تھا ہم اسے اپنے دل میں بسائے تجدید عہد کے لئے آپکے حضور موجود ہیں ، یوں تو فی نفسہ ہی یہ اجتماع اپنے اندر بے شمار برکتوں کا حامل ہے، لیکن اس اجتماع کا حصہ بن کر ہم دنیا والوں کے سامنے اپنی فکر و اپنی منطق کو رکھ سکتے ہیں اس لئے یہ پہلو بہت اہم ہے، یہ اجتماع معمولی اجتماع نہیں ہے بلکہ بقول رہبر انقلاب اسلامی “اربعین کا عظیم اجتماع اس وقت عالم اسلام کی ایک نشانی اور علامت میں تبدیل ہوگیا ہے کہ جو درحقیقت ظلم سے مقابلے کے خلاف انسانی معاشروں اور مسلمانوں میں بیداری کے پہلو کو آشکار کر رہا ہے۔ یہ ایک مناسب موقع ہے تاکہ لوگ امام حسین علیہ السلام سے اپنے عشق و محبت کے جذبے کو ہر سال تازگی بخشیں اور اربعین کو ہر سال گذشتہ سال سے زیادہ عاشقانہ اور والہانہ انداز میں منائیں۔ کوئی مسئلہ نہیں کہ ہم اسے چہلم کہیں یا اربعین ، ۲۰صفر شہدائے کربلا اور سرور و سالار شہیدان کے پیغام کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے تجدید عہد و وفا کا دن ہے”۔ یقینا یہ تجدید عہد حسینی پیغام کو زندہ رکھنے کا ذریعہ تو ہے ہی حسینی سماج کی بنیادوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کابھی ایک ذریعہ ہے البتہ اس کے لئے محض اس اجتماع کا حصہ بن جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک بار ہم اس کربلا پر ایک نظر ڈالیں جو ۶۱ ہجری کی کربلا تھی اور اس تحریک کے پیغام کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں اتاریں جسے امام حسین علیہ السلام نے ہم تک پہنچانا چاہا تھا اسکے لئے صفحات کربلا کی ورق گردانی کی ضرورت ہے یوں تو سید الشہداء علیہ السلام کی تحریک میں آپ مختلف ایسے عناصر تلاش کر سکتے ہیں جو اس تحریک کی بنیاد و اساس کو تشکیل دے رہے ہیں جیسے، اللہ کی بندگی، عدل و انصاف کا قیام ، ظلم و ستم سے مقابلہ ، لیکن تین ایسے بنیادی عناصر اس تحریک میں نظر آتے ہیں جو تمام الہی اہداف کے حصول کے ساتھ اس تحریک کے طرز فکر اور اسکی نہج کو بیان کرتے ہیں۔
کربلا کی اس تحریک میں عقل ومنطق کے پہلو کو مکمل طور پر دیکھا جا سکتا ہے اگر امام علیہ السلام کی کلمات و انکے فرمودات کی طرف نظر ڈالی جائے تو ہمیں ملے گا کہ مدینہ سے کربلا تک ، اور کربلا پہنچنے سے شہادت کے آخری مرحلہ تک ایک مستحکم و پائدار منطق کارفرما ہے ، اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ ایسے حالات میں جب یزید جیسا حاکم امت اسلامی پر مسلط ہو تو ضروری و لازم ہو جاتا ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داری کو پہچانتے ہوئے قدم اٹھائیں ، لہذا اب اگر خطرہ بھی ہو توانسان خطرہ کو دیکھتے ہوئے بھاگتا نہیں ہے بلکہ ایسا قدم اٹھاتا ہے جو خطرہ کے مقابلہ کے لئے مناسب و سزاوار ہو ، اب ان حالات میں بالکل واضح سی بات ہے کہ انسان اس طرح آگے بڑھے کہ دنیا اس کو روک نہ سکے ، انسان کی لذتیں اور خواہشیں اس کے پیروں میں زنجیریں نہ ڈال دیں انسان کی عافیت طلبی و مصلحت اس کی حرکت میں کندی کا سبب نہ بن سکے یہی وجہ کہ امام علیہ السلام واضح طور پر یزید کے مقابل اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کہ اگر کوئی ایسے ظالم و جابر حاکم کو دیکھے جس نے حرام خدا کو حلال کیا ہو، عہد الہی کو توڑا ہو ، سنت رسول اللہ کی مخالفت کی ہو ، بندگان خدا کے درمیان گناہ و ستم روا رکھا ہو ، اور اپنے قول و فعل سے اسکی مخالفت نہ کرے تو خدا کے لئے سزاوار ہے کہ اس کو اسی ظالم و جابر حاکم کی جگہ قرار دے ۔ آگاہ ہو جاو کہ اس جماعت نے شیطان کی اطاعت و بندگی کو خود پر لازم کر لیا ہے اور رحمن کی اطاعت کو ترک کر دیا ہے فساد کو ظاہر کر دیا ہے حدوود الہی کو معطل کر دیا ہے ، بیت المال کو لوٹا ، حلال خدا کو حرام کیا اور حرام خدا کو حلال کیا.
اپنے ان نورانی کلمات کے ذریعہ امام علیہ السلام اس بات کی طرف معاشرے کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ جب دین کی بنیاد و اساس خطرے میں پڑ جائے اور ایسی صورت میں بھی لوگ خود میں مشغول رہیں تو یہ خدا پر حق ہے کہ ایسے دور میں زندگی گزارنے والے غیر ذمہ دار افراد کا مواخذہ کرے اور اپنے شدید عذاب میں گرفتار کر دے ۔